نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کی ضمانت منظور

گواہوں نے راؤ انوار،دیگر ملزمان کے زیر استعمال فون نمبرز کی تصدیق کردی

فوٹو: فائل


کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم پولیس افسر راؤ انوار کی  درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے  دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ راؤ انوار کا نام نقیب اللہ قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا ہے، راؤ انوار پولیس مقابلے کے وقت موقع واردات پر موجود ہی نہیں تھے۔

مدعی کے وکیل صلاح الدین پنہور نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ نقیب اللہ کو ساتھیوں سمیت تین بجکر 21 منٹ پر جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا تھا جبکہ راؤ انوار نے مقابلے سے پہلے ایک بجکر 21 منٹ پر پریس کانفرنس میں نقیب اللہ اور اس کے دیگر ساتھیوں کے قتل کی تصدیق کی تھی۔

صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس مقابلہ بعد میں کیا گیا تو ملزمان کے قتل کی تصدیق پہلے کیسے کی جا سکتی ہے، راؤانوار مبینہ مقابلے کے وقت جائے وقوعہ پر ہی موجود تھے۔

عدالت نے نقیب اللہ  قتل کیس میں راؤانوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے سماعت 27 جولائی تک ملتوی کر دی۔

مبینہ قتل کیس میں دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت پر 16 جولائی کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

مقدمے کے تفتیشی افسر آج بھی پیش نہیں ہوئے، جج نے کہا کہ اگر تفتیشی افسر موجود ہوتے تو جیو فینسنگ پر دلائل سن  لیے جاتے۔

مدعی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم تفتیشی افسر کے رویے کے خلاف آئی جی سندھ کو دو دفعہ  خط  لکھ چکے ہیں۔

عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں راؤانوار کی درخواست ضمانت پر پانچ جولائی کو فیصلہ محفوظ کرتے  ہوئے دس جولائی کو سنانے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے باوجود فیصلہ صبح نو بجے کے مقررہ وقت کے بجائے دوپہر ایک بجے سنایا گیا۔

فیصلے کے بعد راؤ انوار نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری بے گناہی ثابت ہوگئی ہے، مجھے بدنیتی کی بنیاد پر مقدمے میں ڈالا گیا  ہے جب کہ مقدمے میں نہ ہی اٹھانے والوں کا  ذکر ہے اور نہ ہی مارنے والوں کا۔

انہوں نے کہا کہ میرے کیس کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تاہم  اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ضمانت مل گئی ہے۔

راؤ انوار نے کہا کہ میں پہلے دن سے ہی کہہ رہا ہوں کہ میں بے قصور ہوں اور جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا، 99  گواہوں میں سے کسی ایک نے بھی میرا نام نہیں لیا ۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ کا کیس خراب کیا گیا ہے اور اب اصل ملزمان بھی بچ جائیں گے، میرے ساتھ  بھی  ویسا  ہی کیا گیا جیسا مرتضیٰ بھٹو کیس میں ایک شخص کو پھنسانے کے لیے کیا گیا تھا۔

سابق ایس ایس پی نے کہا کہ استغاثہ یہ معلوم نہیں کر سکا کہ نقیب اللہ کو کب گرفتار کیا گیا  تاہم وقت آنے پر میں سب بتا دوں گا کہ کس نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی۔

مقتول نقیب اللہ  کے والد کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے راؤ انوار کی ضمانت پر سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار معاشرے  کے لیے انتہائی خطرناک ہے، ہم  فیصلے کو سندھ  ہائیکورٹ میں چیلنج  کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مقدمہ خراب کرنے پر پراسیکیوشن اور تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر کریں گے،  انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ حکومت راؤ انوار کی ہر طریقے سے مدد کر رہی ہے۔


متعلقہ خبریں