آزاد کشمیر میں بڑھتی بے روزگاری


آزاد کشمیر کی ڈائری

روزگار کے لیے کشمیری عوام کا انحصار سرکاری ملازمت پر ہے، 40 لاکھ سے زائد آبادی میں 80 ہزار سے زیادہ لوگ حکومت آزاد کشمیر کے ملازم ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پرائیویٹ انویسٹ منٹ بھی پھل پھول نہیں پا رہی جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آزاد کشمیر کی ایک جامعہ سے ہر سال تین ہزار سے زائد طلبہ  گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تو سال بھر میں 200 ملازمتیں بھی تشہیر نہیں ہوتیں۔ یہاں صرف آزاد کشمیر کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ گریجویٹس کے لیےآزاد جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن اور وفاق میں محدود کوٹہ ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع تعلیمی قابلیت کے مطابق نہیں مل پاتے۔

آزادکشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں (یو این سی آئی پی ) کے تحت پاکستان کے زیر انتظام ہے جہاں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح اس وقت تقریبا چھ فیصد ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ شرح ایسے ہی چلی آ رہی ہے، ماضی بعید پر نظر دوڑائی جائے تو  30 سال سے پاکستان میں بے روزگاری کی شرح اوسطا یہی رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ  آزاد کشمیر کے اندر اس بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق یہاں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد سے زائد ہے۔ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ گزشتہ دو سالوں میں انہوں نے اس بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے کیا کچھ کیا تو جواب میں گڈ گورننس، پبلک سروس کمیشن اور این ٹی ایس کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ ایسے الفاظ ہیں جن کی تکرار بارہا ان کے اخباری بیان میں ملتی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سے کچھ عرصہ قبل وفاقی کوٹے میں ملازمتوں کے حوالے سے سوال کی جسارت کی گئی  تو ان کا جواب کسی عام آدمی کی مانند تھا اور ایسا محسوس ہوا جیسے گلی کی نکڑ پر بیٹھے دو اشخاص محو گفتگو ہوں اور دونوں کے اختیار میں سوائے تجزیہ کے اور کچھ نہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ سوال ریاست کے وزیراعظم سے تھا جن کو بارہا اس دیرینہ مسئلے سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔ ریاست کے اندر سرکار کے اعلی عہدوں کے لیے قابل افراد منتخب کرنے والے پبلک سروس کمیشن کی رفتار اتنی سست ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، گزشتہ دس سالوں میں تین مختلف حکومتوں میں تین مختلف پی ایس سی  باڈیز تشکیل دی گئیں اور ہر دفعہ طلسماتی طور پر حکومت میں موجود وزرا، ایم ایل اے صاحبان کے اہل وعیال یا عزیر و اقارب اور بیوروکریسی میں موجود اعلی افسران کے رشتہ دار ہی اس میں کوالیفائی کرسکے ہیں۔ ظلم کی داستاں یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب اپنے عزیزوں میں کوئی امیدوار میسر نہ ہو تو محکمہ کی جانب سے مانگی گئی آسامیوں کے لیے پبلک سروس کمیشن مہینوں بعد اشتہار شائع کرتا ہے اور کم و بیش دو سے تین سال بعد اس پر ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ نتائج آنے کے بعد جب فائنل انتخاب کا موقع آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ امیدوار اوور ایج ہوچکا ہے۔

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کے مستقبل کا کیا ہوگا جن پر والدین نے زندگی کی جمع پونچی خرچ کر کے اعلی تعلیم دلائی اور ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگاری کی تکلیف دہ مثال بنے نظر آتے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر کے اندر چند نجی بینکوں اور سیلولر کمپنیر نے اپنا بزنس ریاست کے اندر پھیلایا جس سے چند نوجوان مستفید ہو سکے۔ ان کمپنیز کو اپنا کاروبار آزاد کشمیر تک بڑھانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، وہ ایک الگ داستان ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی مگر آزادکشمیر میں تھری جی اور فور جی سروس نہیں دی جا سکی۔ پہلے تو حکومت کے پاس  کشمیر کونسل اور وفاق کا بہانہ موجود تھا لیکن اب شاید 13ویں ترمیم کے بعد کوئی اور بہانہ تراشہ جائے گا۔

دارالحکومت مظفرآباد میں جگہ جگہ پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے بے بس ہوکر کسی دکان پر ایک مزدور سے بھی کم ماہانہ اجرت پر صبح سے شام تک کام کرتے نظر آتے ہیں یا سالوں تک گھر بے روزگار بیٹھے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں سے معلوم کرنا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست میں نجی سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو پڑھے لکھے نوجوان سرکاری ملازمتوں کی جانب ہی جائے گا جہاں ہزاروں میں سے کوئی ایک خوش نصیب  ہی نوکری حاصل کر پاتا ہے۔

ریاست میں آئے چند بین الاقوامی اورقومی سیاحتی ماہرین کے مطابق آزادکشمیر میں اس وقت سیاحت کے حوالے سے بہت گنجائش موجود ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اس وقت سیاحت سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ ان ممالک میں امریکہ، فرانس اور کئی دوسرے یورپی ممالک سر فہرست ہیں جہاں سالانہ لاکھوں غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ ان ممالک میں جانے والے سیاحوں میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ قدرتی نظاروں کے حوالے سے دنیا میں جنت نظیر کی مثال وادی کشمیر ہے جہاں ان گنت خوبصورت مقامات موجود ہیں اور کئی علاقے توابھی تک دریافت بھی نہیں کیے جا سکے۔ ریاست میں سیاحت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اور اگر یہاں غیر ملکی سیاحوں کو اجازت دے دی جائے تو اس خطے کے لوگوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔

سیاحت عصرحاضر میں وہ واحد ذریعہ ہے جس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے، ریاست میں بہت سے خوبصورت سیاحتی مقامات موجود ہیں جن میں وادی نیلم ، وادی جہلم ، لیپہ ویلی، راولاکوٹ، سدھن گلی، بنجوسہ جھیل سمیت کئی ان گنت خوبصورت مقامات شامل ہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں تو اس شعبے میں روزگار کے بے شمارمواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں