جماعت اسلامی کے سیاسی سفر کی کہانی


اسلام آباد: جماعت اسلامی کا شمار ملک کی ان سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جس میں موروثی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد  ایک مرتبہ پھر 25 جولائی 2018 کو منعقد ہونے والےعام انتخابات میں جماعت اسلامی انتخابی میدان میں ہے۔ اس مرتبہ وہ متحدہ مجلس عمل کے انتخابی اتحاد کا حصہ ہے۔

26 اگست 1941 کو لاہور کے اسلامیہ پارک سے 75 افراد کے اجلاس کے بعد وجود میں آنے والی جماعت اسلامی آج بھی مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کے افکار کے مطابق اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدو جہد کر رہی  ہے۔

1949 میں قراردادمقاصد کی تیاری ہو یا 1953 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے ملک گیر احتجاج  کی تحریک میں جماعت اسلامی نے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سیاست میں خواتین کے کردار کے حوالے سے ایک مخصوص نظریہ رکھنے کے باوجود 1964 میں ہونے والے صدراتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے مادر ملت محترم فاطمہ جناح کی حمایت کی۔

1970 سے 2018 تک کے بیشتر انتخابات میں جماعت اسلامی کسی نہ کسی انتخابی اتحاد کا حصہ رہی اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ بھی کرتی رہی۔

1971 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والی بغاوت ہو یا 1979 میں شروع ہونے والی افغان سوویت جنگ، جماعت اسلامی ہمیشہ ریاستی پالیسی کا حصہ رہی۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن جماعت اسلامی کی جہادی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم کا رد عمل قرار دیتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انتخابی عمل کا بائیکاٹ ان کی وہ سیاسی غلطی تھی جس کا نقصان پالیمارنی سیاست اور عوام سے دوری کی صورت میں ہوا ہے۔


متعلقہ خبریں