کیا بلیک پینتھر میں دکھائی گئی جدت حقیقت میں ممکن ہے؟


اسلام آباد: مارول سینما کی پیش کردہ دنیا کی معروف فلمیں بلیک پینتھر اور انفنیٹی وار دیکھ کر ناظرین ایک مرتبہ ضرور سوچتے ہیں کہ دکھائے جانے والے مناظر میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ۔

ہالی وڈ نے خاصا عرصہ قبل سے ہی فلم کیلیے تحقیق اور سائنسی لحاظ سے ممکنات میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی، نتیجتاَ دو طرح کی سائنس فکشن فلموں نے جنم لیا، وہ جو انٹراسٹیلر کی طرح ذیادہ تر سائنسی حقائق پر مبنی ہیں اور دوسری وہ جو ذیادہ تر سائنسی افسانہ نگاری پر مبنی ہیں۔

بلیک پینتھر میں واکاندہ کا تخیلاتی ملک دیکھ کر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں ایک خیال کو پلاٹ کی بنیاد بنایا گیا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ واکاندہ کی ترقی ایک دھات پر منحصر ہے، وائبرینیم نامی یہ دھات لوہے سے ذیادہ مضبوط اور کپڑے جیسی ہلکی ہے۔ اس دھات کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی بھی چیز کے اثر کو جذب کرنے کی صلاحیت بہت ذیادہ ہے جب کہ اپنی مضبوطی کے باوجود یہ تہہ بھی کی جا سکتی ہے۔

سائنسی حقیقت یہ ہے کہ جو چیز زیادہ مضبوط یا ٹھوس ہو وہ دوسری چیزوں کو اپنے اندر جذب نہیں کرتی اور اسے تہہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اصل زندگی میں ایسی دھات قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی البتہ ہائپرلوپ ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجیز نامی ادارہ ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلان مسک کے ساتھ مل کر ایسا سیمی کنڈکٹر بنا رہے ہیں جو اپنے اندر وائرلیس ٹرانسمیشن کی خاصیت بھی رکھتا ہو۔

واکاندہ کی جدت میں مصنوعی ذہانت بھی شامل ہے۔ جیسے کیمیو بیڈز، جو ایک وقت میں ایک سے ذیادہ کام کرنے کی صلاحیت کے حامل دکھائے گئے ہیں۔ حقیقی زندگی میں دیکھا جائے تو کاسمیٹکس نے وابستہ نام لوریل نے ناخن کے لیے پیچ تیار کیا ہے جو صرف الٹرا وئلٹ سے متعلق معلومات اور جسم پر اس کے اثرات کے اعدادوشمار اکھٹا کرتا ہے۔

بلیک پینتھر میں دکھائی گئی زرہ، لیسوتھو چادریں اور انسانی نظروں سے اوجھل کرنے والے کپڑوں کا وجود اب تک انسانی دنیا میں ثابت نہیں ہے۔ ایسی جدت لانا فی الحال ناممکن لگ رہا ہے البتہ توقع ہے کہ آنے والی صدیوں میں یہ بھی حقیقت بن جائے۔


متعلقہ خبریں