72 ویں یوم آزادی پر ’نشترہاؤس‘ پشاور کی سنی جائے گی یا۔۔۔ ؟


پشاور: پاکستان اسٹیٹ بینک کی پہلی عمارت کا درجہ پانے والا ’نشر ہاؤس‘ 72 سال بعد بھی حکومتی عدم توجہی کا منہ بولتا ’شاہکار‘ بنا ہواہے۔ عوام الناس کے لیے ہر شعبہ ہائے زندگی پر ٹیکسز عائد کرنے کے ’شوقین‘ ارباب اقتدار نے اس عمارت کوبھی ٹیکس سے استشنیٰ نہیں دیا ہے جو ملکی تاریخ کی ’امین‘ اورہمارا ’قومی ورثہ‘ ہے۔

عظمت رفتہ کے امین ’نشتر ہاؤس‘ کی حفاظت پہ پرویز حسن مامور ہیں۔ بیتے وقت کو یاد کرکے وہ ٹھنڈی ’آہ‘ بھرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ گھر قیام پاکستان کے دوران تحریک آزادی کا مرکز تھا اور اسی میں پاکستان کا پہلا اسـٹیٹ بینک بھی قائم کیا گیا تھا۔

قائد اعظم نے پشاور کے عین وسط میں واقع ’نشتر ہاؤس‘ کو نو دن تک شرف میزبانی بخشا تھا۔ اس گھر کے مکینوں نے آج تک نہ صرف اپنے محبوب قائد کی یادوں کو دل سے لگا کررکھا ہے بلکہ اہل پاکستان کے لیے ان اشیا کی بھی دل و جان سے حفاظت کی ہے جو بانی پاکستان کے زیراستعمال رہی تھیں۔

تحریک  آزادی کے دوران 1945 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ قرار پانے والا ’نشتر ہاؤس‘ آج بھی عظیم قائد کی یادوں سے مہکا ہوا ہے، اگر کوئی ’صاحب دل‘ ذرا غور سے سنے تو اپنے در و دیوار سے گزرے دنوں کی آنکھوں ’دیکھی‘ بتاتا بھی ہے۔

’نشتر ہاؤس‘ کے مکینوں کو دوران میزبانی عظیم مملکت پاکستان  کے بانی کے ان اوصاف و اطوار سے بھی آگاہی حاصل ہوئی جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر کے مکینوں کی یادداشتیں محفوظ بنانے کا سرکاری سطح پراہتمام کیا جائے۔

1942 میں تعمیر ہونے والے 43 مرلے کے اسی گھرمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے قبائلی عمائدین اور معززین پشاور نے ملاقات کی تھی اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ دامے درمے اور سخنے قیام پاکستان کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔

ماہ رواں جب اہل وطن 72 واں جشن آزادی منارہے ہیں تو ’نشترہاؤس‘ پوچھ رہا ہے کہ کیا اس مرتبہ جب پاکستان میں حقیقی ’تبدیلی‘ آگئی ہے تو میری بھی سنی جائے گی یا پون صدی کی طرح ’صدا بہ صحرا‘ ثابت ہوگی۔

امیدوں کی یہ فصل اے ہمدم —اب کے بھی اکارت جائے گی۔۔۔؟


متعلقہ خبریں