خیبرپختونخوا اسمبلی، پی ٹی آئی نے روایت بدل ڈالی


خیبرپختونخوا اسمبلی کے درودیوار صوبے میں سیاسی اتار چڑھاؤ کی منفرد تاریخ کی گواہی دیتے ہیں، 99  عمومی اور مجموعی طور پر 124  نشستوں کے اس ایوان کا اعزاز رہا  ہے کہ کسی جماعت  کو مسلسل دوسری دفعہ اپنی نشستوں پر نہیں بیٹھنے دیا۔

2002 میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد پہلے انتخابات ہوئے تو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے 52 نشستوں پر کامیابی  حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا، دوسری کوئی جماعت دس سے زائد نشستیں نہ لے سکی جبکہ نومولود پی ٹی ائی کے حصے میں صرف ایک نشست آئی۔

جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اتحاد  نے اکرم خان درانی  کو وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز کیا جو اپنا پانچ سالہ ہنگامہ خیز دور پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

2008  کے انتخابات میں خیبرپختونخوا اسمبلی سرخ انقلاب کی لپیٹ میں آئی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 33 نشستوں کے ساتھ  ایوان کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری جبکہ پیپلز پارٹی اٹھارہ نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

دونوں جماعتوں نے مل کر صوبے میں حکومت بنائی اور اے این پی کے امیر حیدر ہوتی  وزیر اعلیٰ بن گئے، سابقہ حکمراں اتحاد ایم ایم اے صرف دس نشستیں حاصل کر سکا جبکہ  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  نے ان انتخابات کا بائیکاٹ  کیا۔

پانچ سال بعد اے این پی کے اقتدارکا سورج غروب ہوا تو 2013  کے انتخابات میں نتائج  ایک  بار پھرغیرمتوقع تھے، صوبے کے عوام نئی جماعت پی ٹی ائی  کو ایوان اقتدار میں لے آئے جس نے 44  نشستوں کے ساتھ  سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

سابقہ حکمراں جماعت اے این پی صرف چارنشستیں حاصل کرسکی،  پی ٹی ائی کے پرویز خٹک نے قائد ایوان کے طورپر 5 سال پورے کیے اور جاتے جاتے دوبارہ آنے کا دعویٰ بھی کر دیا۔

اب 2018 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا اسمبلی نے اپنی روایت بدل ڈالی اور دوسری دفعہ پی ٹی آئی  کے لیے اپنے دروازے کھول دیے، 66  نشستوں کے ساتھ  پی ٹی آئی پہلے سے بھی مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آ گئی ہے۔

سیاسی مبصرین پی ٹی آئی کی کامیابی کو ایک جانب حیرت و تحسین کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے حلقے اسے اپنی ان خدمات کا صلہ قرار دے رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبے کے عوام کے لیے انجام  دیں۔

نقاد خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے پانچ سالہ دور کو سخت کسوٹی پر پرکھتے ہیں کیونکہ ایک جانب پی ٹی آئی چیف عمران خان کے یہ دعوے تھے کہ انہوں نے صوبے کے عوام کی قسمت بدل ڈالی  ہے تو دوسری جانب سیاسی مخالفین کی یہ تنقید تھی کہ پی ٹی آئی نے صوبے کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

حقیقت جو بھی ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ صوبے کے عوام نے اپنی روایات کے برعکس پی ٹی آئی کو ایک بار پھر اپنی نمائندگی کا حق دے دیا ہے۔

اب پاکستان تحریک انصاف کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ  صوبے کے عوام کی ان توقعات کو پورا کرے جو کسی بھی وجہ سے ان کے سابقہ دور حکومت میں پوری نہیں ہو سکیں تا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے اپنی روایت بدلنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ مستقبل میں بھی جاری و ساری رہے۔


متعلقہ خبریں