مویشی منڈیاں: بیوپاری اور خریدار دونوں غیرمطمئن


اسلام آباد/کراچی: عیدالاضحیٰ کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے مختلف شہروں میں مویشی منڈیاں سجنا شروع ہو گئی ہیں۔ جانوروں کی قربانی کے لیے قصابوں کے پاس بکنگ کرانے کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔

شہروں کے مختلف مقامات پر اجتماعی قربانی کے حوالے سے پینا فلیکس و بینرز آویزاں کر دیے گئے ہیں تو گھروں میں پمفلٹس ڈالنے کے  سلسلے کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔

شہریوں کو اجتماعی قربانی میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کے لیے متعدد ادارے، انجمنیں اور تنظیمیں موبائل فون پر پیغامات بھی بھیج رہے ہیں۔

ملک کی سب سے بڑی مویشی منڈی جو شہرقائد کراچی میں سجتی ہے وہاں قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں سے ٹیکسز کی مد میں بھاری رقوم لینے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔

مویشی منڈی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ بکراپیڑی میں داخل ہونے والے ٹرالر پر 220 روپے علیحدہ سے فیس عائد کی گئی ہے۔

مویشی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ لائی جانے والی گائے پر 250 روپے اور بکرے پر 120 روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں۔ قربانی کے لیے لائے جانے والے دنبے پر بھی بیوپاریوں کو 120 روپے ٹیکس دینا پڑرہا ہے۔

مویشیوں کے تاجر کہتے ہیں کہ ڈی ایم سی ملیر کے ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد منڈی میں مزید ٹیکسز کی ادائیگی سراسر ظلم  و زیادتی کے مترادف ہے۔

مویشی منڈی آنے والے شہری کہتے ہیں کہ بیشک بیوپاری ٹیکسز کی زیادتی پر احتجاج کررہے ہیں لیکن اول و آخر ان کی ادائیگی بھی ہم سے ہی کرائیں گے۔

شہریوں کا مؤقف ہے کہ جانوروں کی قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نمود و نمائش کے بجائے اس کو مذہبی فریضہ سمجھا جائے اورحکومت جانوروں کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنےکے لیے میکنزم ترتیب دے۔


متعلقہ خبریں