امریکہ نے پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں محدود کر دیں

پاکستان نے امریکی رپورٹ کی تردید کر دی

اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے انتہائی خاموشی سے تربیتی اور تعلیمی پروگرامزسے پاکستانی افسروں کی تعداد کم کرنا شروع کر دی ہے۔

ایک نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ دفاع یا پاکستانی عسکری حکام نے باضابطہ طور پراس معاملے پر رائے دینے سے گریز کیا ہے لیکن دونوں ممالک کے حکام نجی محفلوں میں اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

دفاعی او سیاسی مبصرین کے خیال میں اب تک پس پردہ رہنے والا یہ اقدام امریکی صدر کی جانب سے رواں برس کے اوائل میں دیے گئے اس بیان کا حصہ لگتا ہے جس میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے سیکیورٹی امداد معطل کرنے کا کہا گیا تھا۔

ایک امریکی نمائندے  نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اس اقدام سے پاکستان کے ساتھ اعتماد سازی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا، دوسری جانب پاکستانی حکام نے واضح کیا ہے کہ یہ عمل ان کی فوج کو تربیت کے لیے چین اور روس کی جانب متوجہ کرنے کا سبب بنے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) کے موثر التواء کی صورت میں رواں برس تربیتی عمل میں شرکت کرنے والے 66 پاکستانی افسر اس سے محروم رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یا تو یہ نشستیں خالی رہیں گی یا انہیں دوسرے ملکوں کے افسروں کو منتقل کر دیا جائے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی ڈین فیلڈمین نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کو کوتاہ بینی پر مبنی قدم قرار دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ دوطرفہ تعلقات پر ایسے منفی اثرات مرتب کرے گا جو طویل المدت ہوں گے۔

دفترخارجہ کے ایک اہلکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ IMET کے ترک شدہ  پروگرام کی مالیت 2.4 ملین ڈالر ہے، ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے مزید دو پروگرامز بھی متاثر ہوئے ہیں.

یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ امریکا اور پاکستان کی فوجی قیادتوں میں اعلی سطح کے معاہدوں اور IMET کے علاوہ کس حد تک فوجی تعاون برقرار ہے۔


متعلقہ خبریں