اسلامیہ کالج پشاور، جدوجہد آزادی کا سنگ میل


پشاور: اسلامیہ کالج  پشاور تحریک آزادی کے حوالے سے منفرد مقام رکھتا ہے، قیام پاکستان میں اس درس گاہ  کے نوجوانوں کی خدمات اور اس کی تاریخی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

کوہ سفید اور تاریخی  درہ خیبر کے دامن میں واقع اسلامیہ کالج  پشاور، شہر کے مرکز سے پانچ کلو میٹر مغرب میں یونیورسٹی روڈ پر واقع ہے۔

تاریخی پس منظر:

105 سالہ عظیم ماضی کی حامل  اس شاندار تعلیمی درس گاہ کی بنیاد  صاحبزادہ عبدالقیوم  اور سر جارج روز کیپل نے 1913 میں رکھی،  صاحبزادہ عبدالقیوم ، سر سید احمد شہید  کے مسلک اور تحریک علی گڑھ  کے زبردست حامی تھے اور اسی وجہ سے اسلامیہ کالج میں علی گڑھ  کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہ کالج جس جگہ قائم کیا گیا ہے اس کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس مقام پر تقریباً 1800  سال قبل 200  میں بدھ مت کی تعلیمات کے لیے ایک بہت بڑی خانقاہ موجود تھی، اس وقت یہاں کشان خاندان کا راجہ کنشکا برسر اقتدار تھا۔

جدوجہد آزادی میں کردار:

اسلامیہ کالج  پشاور  کے طالب علموں نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور 3 جون 1947  کے منصوبے کے مطابق خیبر پختونخوا میں پاکستان کے لیے کرائے گئے ریفرنڈم میں اس کالج کے طلبا نے گھر گھر جا کر لوگوں کو آزادی کی اہمیت سے روشناس کرایا۔

بانی پاکستان قائداعظم کو اس درس گاہ سے اتنا لگاؤ تھا کہ خیبر پختونخوا کے تینوں دوروں میں وہ بطور خاص یہاں تشریف لائے، ان کی جذباتی وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قائد نے اپنی ذاتی جائیداد سے اس ادارے کے لیے حصہ مقرر کر رکھا تھا۔

اسلامیہ کالج کے پرو وائس چانسلر نوشاد خان نے بتایا کہ تحریک پاکستان اور دیگر تحریکوں میں اسلامیہ کالج کے طالب علموں نے کلیدی کردار ادا کیا،  ترکی میں خلافت عثمانیہ کی تحریک سے حصول پاکستان کی جتنی بھی تحریکیں ہوئیں، اسلامیہ کالج کے طالب علم ان میں پیش پیش رہے۔

نوشاد خان نے بتایا کہ اسلامیہ کالج کے طلبا کی انہی کاوشوں پر قائداعظم محمد علی جناح  نے 12 اپریل 1948  کو یہاں آ کر آزادی کی تحریک میں بھرپور شمولیت پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

بیش بہا تعلیمی خدمات دینے والا یہ ادارہ آج جامعہ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔


متعلقہ خبریں