جشن آزادی پر سکھ برادری کی تقریبات اور پاٹھ کا اہتمام


پشاور: ملک بھر کی طرح  پشاور میں بھی اقلیتی برادری جشن آزادی  پرجوش انداز میں منا رہی ہے۔

قومی پرچم میں سفید رنگ کی علمبردار اقلیتی برادری بھی جشن آزادی میں کسی سے پیچھے نہیں، سکھ برادری کے جوانوں نے قومی پرچم والے کپڑے زیب تن کیے اور سینوں پر بیجز بھی آویزاں کیے۔

مسلمانوں نے مساجد میں ملکی سلامتی اور خوشحالی کی دعائیں مانگیں تو پشاور کی سکھ برادری نے گوردارے میں ملک کی سلامتی کے لیے خصوصی پاٹھ  کیے اور بھگوان سے پرارتھنا کی کہ پاکستان سدا سلامت رہے۔

جشن آزادی کے موقع پر گرنتھ صاحب کا خصوصی پاٹھ  بھی ہوا،  گرنتھ  پنجابی میں کتاب  اور صاحب اردو اور عربی  میں دوست ساتھی یا مالک کو کہتے ہیں، سکھ  اسے محض مذہبی کتاب ہی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ان کے لیے زندہ  گورو کی حیثیت بھی رکھتی ہے، اس لیے اسے گورو گرنتھ  صاحب بھی کہتے ہیں۔

پانچویں سکھ  گورو ارجن دیو (1616- 1581) نے گورو گرنتھ کی ترتیب و تدوین 1603 میں شروع کی تھی، اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں گرنتھ  صاحب کی تیاری کا کافی چرچا ہوا، گورو ارجن دیو جی کے علاوہ پہلے چار سکھ گوروؤں اور مسلمان اور ہندو صوفیا اور بھگتوں کے کلام  پر مشتمل گورو گرنتھ صاحب 1604 میں مکمل ہوئی۔

اس کے بعد اس میں باقی پانچ گورووں کا کلام بھی شامل کیا گیا، دسویں گورو گوبند جی کا علیحدہ کلام  دسم گرنتھ کے نام سے موسوم ہے۔

آخری گورو گوبند سنگھ  جی نے اپنی موت سے ایک سال پیشتر 1708 میں حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق ان کے بعد کوئی گورو نہیں آئے گا، گورو گرنتھ  صاحب کو ہی رہبر و رہنما تسلیم کیا جائے گا اسی لیے گورو گرنتھ  صاحب کو حاضر گورو مانا جاتا ہے اور ہر خاص موقع پر اس کا پاٹھ کیا جاتا ہے۔

جشن آزادی کے موقع پر بھی اس کے خصوصی پاٹھ کا اہتمام کیا گیا۔

سکھ برادی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ہمارے حوصلے ہمیشہ بلند ہیں اور اُنہیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان اُن کی پہچان ہے، وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان کے لیے جنت سے کم  نہیں ہے اور ہمارے گورو نانک کی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی، پاکستان نے اُنہیں صرف آزادی ہی نہیں بلکہ شناخت بھی دی ہے۔

جشن آزادی کے موقع پر سکھ نوجوانوں نے کیک کاٹا اور ملی نغمے گائے جبکہ سکھ برادری نے قومی پرچم لہرا کر مادر وطن سے محبت کا اظہار کیا۔


متعلقہ خبریں