کوئٹہ: کان میں پھنسے مزدوروں کی تلاش اب بھی جاری


کوئٹہ: 50  گھنٹے گزرنے کے باوجود پھنسے ہوئے کان کنوں کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔

چیف انسپکٹر کول مائنز افتخار احمد کے مطابق کان میں بہت زیادہ گیس بھری ہوئی ہے جس کے باعث پہلے گیس کے اثر کو ختم کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی کان کنوں کو نکالنے کی کو شش کی جائے گی۔

ڈپٹی کمشنر کوئٹہ ظفر عباسی کے مطابق ابھی تک 7 کان کن اور امدادی ٹیم کے کارکن 4000 فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے ہیں، کان کنوں کو نکالنے کے لیے مزید 12 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

اتوار کو 13 کان کن سنجدی کے علاقے میں واقع ایک کان سے کوئلہ نکالنے کے لیے 4500 فٹ زیرِ زمین گئے تھے جن کے کام کے دوران کان میں چنگاریاں پیدا ہونے سے دھماکہ ہوا۔

دھماکے سے کان بیٹھ گئی تھی اور واقعے کے فوراً بعد ہی امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی تھیں۔

امدادی کارکنوں نے پیر کی صبح ساڑھے چار بجے آٹھ کان کنوں کی لاشیں کان سے نکال لی تھیں اور پانچ افراد کو نکالا جانا ابھی باقی ہے جو ان کے بقول قوی امکان ہے کہ زندہ نہیں بچے ہوں گے۔

چیف انسپکٹر کول مائنز کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی پوری توجہ کان میں موجود لاشیں نکالنے پر مرکوز ہے اور واقعے کی تحقیقات لاشیں نکالنے کے بعد کی جائے گی۔

بلوچستان کے پانچ اضلاع کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جنہیں  نکالنے کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد کانیں موجود ہیں۔

ان کانوں سے 40 ہزار سے زائد مزدور سالانہ 90 لاکھ  ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالتے ہیں۔

ان کانوں میں اکثر و بیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں، رواں سال مئی میں ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے میں موجود کوئلے کی کانوں میں دو دھماکوں سے 23 کان کن، اپریل میں ضلع  قلات کے علاقے میں ایک کان میں دھماکے سے چھ  کان کن جبکہ گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے تین مختلف حادثات میں آٹھ کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔

کان کنوں کی انجمن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کان کے اندر گیس بھرنے اور دیگر وجوہات کے باعث دو درجن سے زائد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں 100 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں