وزیراعظم کا انتخاب: پی ٹی آئی مستحکم، اپوزیشن متزلزل

وزیراعظم کا انتخاب: پی ٹی آئی مستحکم، اپوزیشن متزلزل | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں انتقال اقتدار کا آخری مرحلہ آن پہنچا ہے جس میں وزیراعظم کا چناؤ کیا جائے گا۔ قائد ایوان کے لیے عددی اکثریت کی حامل جماعت پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن بظاہر مستحکم نظر آرہی ہے تاہم حزب مخالف کی صفوں میں ابہام واضح نظر آتا ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کاغزات نامزدگی آج جمعرات کو دن دو بجے تک جمع کرائے جا سکیں گے اور خفیہ رائے شماری کا انعقاد 17 اگست یعنی کل جمعہ کے روز ہوگا۔

وزارت عظمیٰ کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان امیدوار ہوں گے لیکن متحدہ اپوزیشن وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کے نام پر تقسیم دکھائی دیتی ہے۔

حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی رہنما شیری رحمن ن لیگی امیدوار پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

بلاول بھٹو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ووٹ اور سپورٹ کا فیصلہ وزیراعظم کے لیے ن لیگی امیدوار کا نام دیکھ کر کیا جائے گا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وزارت عظمی کا امیدوار تبدیل کرائیں گے۔

دوسری جانب ن لیگ نے معاملہ پر ظاہر کیے گئے ردعمل میں کہا ہے کہ شہباز شریف ہی وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے۔

قومی اسمبلی کی حلف برداری سے قبل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منعقد کی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں طے کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کے لیے ن لیگ، اسپیکر کے لیے پیپلزپارٹی اورر ڈپٹی اسپیکر کے لیے مجلس عمل کے امیدوار میں اتاریں جائیں گے۔

ن لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے، میں گواہ ہوں متحدہ اپوزیشن میں طے ہوا تھا کہ شہباز شریف وزارت عظمی کا الیکشن لڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ زرداری کی مجبوریوں کا احساس ہے اس لیے کوئی گلہ نہیں۔

گزشتہ روز اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران بھی کامیاب امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد نے یہ سوال کھڑے کیے تھے کہ تجربہ کار پارلیمینٹیرینز کے آٹھ ووٹ کیسے مسترد ہوئے؟ اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے تحریک انصاف امیدوار کو توقع سے سات ووٹ زائد کیوں پڑے؟

جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی جانب سے بھی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے متعلق کہا گیا کہ دونوں جماعتوں نے اے پی سی کے فیصلوں سے روگردانی کی ہے۔ وزیراعظم کے ووٹ کیلیے جماعت اسلامی پابند نہیں ہے۔

342 رکنی قومی اسمبلی میں کامیابی کیلیے وزیراعظم کے نامزد امیدواروں کو اکثریتی ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ ایک سے زائد نشستوں پر جیتنے والے امیدواروں کی جانب سے خالی کردہ نشستوں اور الیکشن کے التواء والی نشستوں پر ارکان منتخب نہ ہونے کی وجہ سے حق رائے دہی استعمال کرنے والے ارکان کی تعداد اصل سے کم ہو گی۔


متعلقہ خبریں