نصرت کی موسیقی: روح کی صدا


اسلام آباد: موسیقی پر ڈاکٹریٹ کرنے والے فرانسیسی سوانح نگار و محقق پیئر آلیں بو نے کہا تھا کہ ’’نصرت کی موسیقی میں شامل صرف سات سر ہی نہیں بولتے بلکہ یہ ہماری روح کی صدا ہے جو بازگشت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اسی لیے وہ آج بھی دنیا کے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں‘‘۔

پیئر آلیں بو نے بالکل ٹھیک کہا تھا، نصرت فتح علی خان آج بھی پوری آب و تاب سے ’زندہ‘ ہیں حالانکہ انہیں مداحوں سےبچھڑے 21 برس بیت گئے ہیں۔ فرانسیسی محقق و سوانح نگار نے قوالی، گیت، موسیقی اورغزل کے بے تاج بادشاہ کی پہلی سوانح عمری فرانسیسی زبان میں لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ شوکت نیازی نے کیا تھا۔

پیئرآلیں بو کے خیالات کو ممتاز کالم نگار خرم سہیل نے ان الفاظ میں نقل کیا تھا کہ ” ٹوکیو میں نغمہ سرا مہاتما بدھ، تیونس میں انسانی سنگیت کا جوہر، لاس اینجلس میں جنت کی آواز، لندن میں روح، پیرس میں مشرق کی پا روتی اور لاہور میں شہنشاہِ قوالی کے القاب سے نوازے جانے والے  خدا کی محبت میں دیوانے، خدا کے عاشق اس ’عوامی گائیک‘ نے تقریباً ڈیڑھ دہائی میں عالمگیر شہرت کمائی اور پھر اپنے پیچھے ہزاروں نقشِ پا چھوڑے چلا گیا‘‘۔

13 اکتوبر 1948 کوفیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 2015 میں ’گوگل‘ نے ’ڈوڈل‘ متعارف کرایا تھا۔ اپنے راگ اورالاپ کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے اس عظیم فنکارنے پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی فلم ’ دی بینڈٹ کوئن‘ میں پہلی مرتبہ اپنی آواز کا جادو جگایا تو پورا بالی ووڈ ان کی ’لے‘ کے سحر میں مبتلا ہوگیا۔

نصرت فتح علی خان نے 40 سے زائد ممالک میں کنسرٹ کیے ۔ 1988میں پیٹر گبریل کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپ ٹیشن آف کرائسٹ‘کے لیے بھی ان کی آواز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کے بعد پیٹرگبریل کے ساتھ قوالیوں کےالبم ریلیز کیے۔ ممتاز بھارتی موسیقار اے آر رحمان، گیت کار جاوید اختر اوردیگر کے ساتھ بھی انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

فرانسیسی محقق و سوانح نگار پیئر آلیں بو نے لکھا تھا کہ ” مجھے نصرت فتح علی خان  کی شخصیت اور آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا کیونکہ ان کی صرف آواز میں ہی جادو نہیں تھا بلکہ وہ اسٹیج پر گائیکی کے دوران جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے تھے وہ بھی قابل تحسین تھا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ اپنی عام زندگی میں بھی ایک حساس دل کے مالک، سچے اور اپنے کام سے مخلص فنکار تھے۔ عاجزی ان کی شخصیت کا سرمایہ تھی‘‘۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ دنیائے موسیقی سے عالمگیر شہرت حاصل کرنے والے عظیم فنکار کو ان کے والد فتح خان  ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے حالانکہ وہ خود اپنے وقت کے بڑے قوال تھے۔ یہ بات خود نصرت فتح علی خان نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔

ممتاز بھارتی گلوگارہ لتا منگیشکر نے ان کی وفات کے بعد ایک انٹرویومیں کہا تھا کہ’’ نصرت صاحب کی موت سے دنیائے موسیقی کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک میں ہی نہیں ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔ نصرت صاحب نے ایک فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی جس کے گیت مجھے گانا تھے  لیکن میں کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گیت نہ گا سکی جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا‘‘۔

نصرت فتح علی خان نے اپنی زندگی کا آخری ملی نغمہ ’میرا ایمان پاکستان‘ گایا اور 16 اگست 1997 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ جگراور گردوں کے عارضے سمیت دیگرامراض میں مبتلا تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر محض 49 سال تھی۔

ٹائم میگزین نے دو ہزار چھ میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام شامل کیا تھا۔ 1992 ء میں جاپان میں ’شہنشاہ قوالی‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی جس میں انہیں ’گانے والے بدھا‘ کا لقب دیا گیا۔

نصرت فتح علی خان نے بحیثیت قوال 125 آڈیو البم ریکارڈ کرائے۔ ان کی ایک حمد ’وہی خدا ہے‘ کو بے پناہ شہرت ملی۔ ’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں بھی ان کا نام شامل کیا گیا۔

دم مست قلندر مست، علی مولا علی، میرے رشک قمر، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، اللہ ہو اللہ ہو، کنا سوہنڑا تینوں رب نے بنایا، سانوں اک پل چین نہ آوے، میرا پیا گھر آیا، آپ سے مل کر ہم کچھ  بدل سے گئے اور تم ایک گورکھ  دھندا ہو جیسے شہرہ آفاق گیت و قوالیاں نصرت فتح علی خان کے نام سے وابستہ ہیں۔

بیشک! نصرت فتح علی خان دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے ہیں لیکن ان کے ہزاروں ’زندہ‘ گیت  کانوں میں رس گھول کر انہیں دلوں میں زندہ رکھنے کا سبب بن رہے ہیں اور راحت فتح علی خان جیسے ہونہار شاگرد بھی ان کے نام وکام کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔


متعلقہ خبریں