نیا پاکستان اور پرانا آزاد کشمیر


عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے وفاق میں اپنی حکومت بنالی اور عمران خان ملک کے 22 ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔

گزشتہ سال جب انہی دنوں میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دیا گیا تو ملکی سیاست میں کافی ہلچل مچی،  جولائی اور اگست میں اپنے قائد سے اظہار محبت کے طور پر وزیراعظم آزاد کشمیر ریاستی امور کو ایک طرف چھوڑ کر ایک ماہ سے زائدعرصہ اسلام آباد کے کشمیر ہاوس میں مقیم رہے۔

یہ وہی کشمیر ہاؤس ہے جسے وزیراعظم آزادکشمیر نے بطور اپوزیشن لیڈر اقتدار میں آنے کے بعد مسمار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جب میاں نواز شریف نے نااہلی کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا وہیں وزیراعظم آزاد کشمیر بھی اپنے پروٹوکول کے ہمراہ اسی قافلے میں موجود رہے، اس سے قبل جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو وزیراعظم آزاد کشمیر کی پریس کانفرنس قومی میڈیا پر ہیڈلائنزکی زینت بننے سمیت بھارتی میڈیا میں بھی اچھی خاصی اچھالی گئی۔

کسی کشمیری کا دل کبھی بھی ایسا کچھ کہنے کا نہ کرے مگر وزیراعظم آزاد کشمیر نے میاں صاحب کی سیاست کی خاطر کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچایا جس پر وزیراعظم  کی اپنی منطق کے مطابق بیان سننے کو ملتے رہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر یہ بھول گئے تھے کہ کشمیر کی آزادی اور اس کے الحاق پاکستان کی جدوجہد کے نظریے نے اب تک لاکھوں قربانیاں دی ہیں مگر اس وقت ان کی نظر میں صرف میاں نواز شریف تھے، میاں صاحب سے اُنس اپنی جگہ لیکن ساتھ میں وزیراعظم صاحب کا یہ کہنا کہ میں عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتا، اب تک زبان زدِعام ہے اور اب عمران خان کے وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد سب اس بیان کو یاد کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ نام لیے بغیر وزیراعظم آزاد کشمیر نے عمران خان کی ذاتی زندگی پر وار بھی کیے۔

اس متنازعہ بیان پر عمران خان نے بھی اپنے جلسوں میں وزیراعظم آزادکشمیر کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور آزادکشمیر کے عوام سے وزیراعظم  کے گھر کے باہر مظاہرے کرنے کا کہا، عمران خان نے وزیراعظم آزادکشمیر کو نامناسب القابات سے بھی نوازا۔

وزیراعظم آزادکشمیر نے عمران خان کے اس بیان پر پھر سے پریس کانفرنس کرکے للکارا کہ میں اکیلا جاؤں گا مظفر آباد اور دیکھ لینا کوئی مظاہرہ نہیں کرے گا اور ساتھ  ہی اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے آبدیدہ ہوتے ہوئے یہ کہا کہ میں عمران خان کے خلاف سری نگر اور لندن میں مظاہرے کرا سکتا ہوں ، میری وزارت عظمیٰ جاتی ہے تو چلی جائے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔

اب جب کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی ہے تو وزیراعظم آزادکشمیر کی پریس ریلیزز پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کیا یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے ایک ایک سال قبل ایسے بیانات دیے تھے، پھر اچانک وہ شعر یاد آ گیا کہ یاد ماضی عذاب  ہے یارب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔

اب وزیراعظم آزادکشمیر کی عمران خان سے بطور وزیراعظم  پاکستان ملاقات کے بعد واضع ہوگا کہ وہ سب سیاسی بیان تھے یا رنجیشیں ابھی باقی ہیں، کیونکہ صدر مسلم لیگ نون شہباز شریف سے تو اب مصافحے ہو ہی رہے ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آزادکشمیر اور وفاق میں عام انتخابات کے فرق ہونے کی وجہ سے ریاستی حکومت کو کافی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔

بجٹ خسارے والی ریاستی حکومت کو وفاق میں دو سال ایک اور تین سال دوسری حکومت سے تعلق بنانا پڑتا ہے، ریاست کے اندر سوائے سرکاری ملازمتوں کے روزگار کے دیگر مواقع  بھی میسر نہیں اور پھر سیاسی بنیادوں پر ٹھیکے اور ترقیاتی کاموں میں کرپشن۔

یہ ہر سیاسی حکومت میں موجود ٹھیکیدار نما کارکنوں کی کمائی کا بڑا ذریعہ رہا ہے، عصر حاضر میں وفاق اور ریاستی حکومت کے درمیان اچھا تعلق کار ہونا ضروری ہے ورنہ ریاستی امور آئندہ تین سال تک متاثر ہوتے رہیں گے۔

ریاست میں 26 سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے سے ریاستی سیاست میں نوجوان چہرے نہ ہونے کے برابر ہیں، سیاسی طور پر اور عوام کے مفاد میں بھی یہ بات اہم ہے کہ ریاست کے اندر جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جائے کیونکہ وفاق میں بننے والی حکومت کا براہ راست  اثر ریاست کے عوام پر پڑتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ اگر تحریک انصاف ریاستی سیاست میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تو بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اپنے میئرز، ڈپٹی میئرز سمیت بلدیاتی نمائندے میدان میں لائے جس سے ترقیاتی عمل میں حصہ داری سے کرپشن پر قابو پانے سمیت ریاست کے اندر بلدیاتی نمائندوں کے ہونے سے ترقیاتی عمل بھی تیز ہو۔


متعلقہ خبریں