شریف خاندان کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت


اسلام آباد: اسلام اباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ  نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی احتساب عدالت سے ملنے والی  سزاؤں کی معطلی کے خلاف دائر درخواستوں  پر سماعت کر رہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ  اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ  کے سامنے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر دلائل دے رہے ہے۔ اپنے دلائل کےآعاز میں نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی احکامات کے مطابق درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل کا شق وار جواب جمع کرادیا ہے۔

سردار مظفر نے کہا ملزمان کی فیصلہ کے خلاف اپیل گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہے، انہوں نےکہا کہ اس کیس میں ملزمان کی سزا معطل نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے عدالت سزا معطلی کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کریں۔

اپنے دلائل میں  نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ استغا ثہ نے دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔  جس پر جسٹس میاں گل حسن نے سردار مظفر سے کہا کہ اپنے دلائل کو  سزا معطلی تک محدود رکھے۔

سردار مظفر نےکہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ملزمان نے اپنی پراپرٹیز مانی ہیں۔ اوریہ فلیٹس جن کمپنیوں کی ملکیت ہیں پراسیکیوشن نے ثابت کیا کہ ان کمپنیوں کی مالک مریم نواز ہے ۔

انہوں نے بڑٹش ورجن آئیلینڈ کا ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیکر کہا کہ خط میں مریم نواز کو نیلسن اور نیسکو ل کمپنیوں کا بینیفشل مالک قرار دیا گیا ہے۔ اس خط سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ اگر کوئی ٹرسٹ کمپنیوں سے منسلک ہوتا تو اس کا حوالہ ہوتا، ہم نے یہ  دستاویزات عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ انکی ہم سے کیا مراد ہے کیا یہ دستادیزات نیب نےعدالت میں جمع کرائی؟ اس پر سردار مظفر نے کہا کہ گواہ  واجد ضیاء نے یہ دستاویزات عدالت میں جمع کرائی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نی نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  ویسے سردار صاحب، واجد ضیاء آپ نہیں ہیں،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید استفسار کیا کہ 2012 میں ان کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے ایم ایل اے کیوں لکھا گیا تھا؟ سردار مظفر نے جواب دیا کہ یہ کسی خاص کیس کے لیے نہیں بلکہ معمول کے مطابق لکھا گیا تھا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جب کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ مدعا علیہان کی طرف سے اپنایا گیا موقف درست ثابت نہیں ہوتا،توجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آپ اس آبزرویشن پر جائیں گے تو سزا ہونا ہی ہے۔ انہوں نے کیا کہ  سپریم کورٹ نے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر کیس ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا اور اس بنچ نے ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگز کو دیکھنا ہے۔

جسٹس میاں گل نے ریمارکس دیا کہ التوفیق کیس میں نوازشریف کا کیا لینا دینا ہے؟ اس پر  سردار مظفر نے کہا کہ مریم نواز اور حسین نواز ڈائریکٹر شئیر ہولڈر اور حسن نواز شئیر ہولڈرتھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس میں میاں نوازشریف کہاں ہیں؟ آپ کا تو کیس ہی یہی ہے نہ کہ بچے بے نامی دار تھے؟

سردار مظفر نے جواب دیا کہ یہ ڈائریکٹ کیس نہیں ہے،جائیداد بلواسطہ آف شور کمپنیوں اور بے نامی داروں کے نام پر بنائی گئی۔ جب نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل نے  سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس میاں گل نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سردار صاحب اکثریتی فیصلے کا حوالہ دیں اقلیتی کا نہیں۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ  میں ساری بات مان لیتا ہوں لیکن یہ بتادیں کہ فلیٹس کی قیمت کیا تھی،فیصلے میں بتادیں کہ کہاں فلیٹس کی قیمت لکھی ہے یا شواہد ہیں۔ اس پر عدالت نے خواجہ حارث کو روکا اور کہا ابھی سردار صاحب کو دلائل دینے دیں، آپ کو بعد میں موقع دینگے۔

سردار مظفر نے کہا کہ وہ کوشش کرینگے کہ آج ہی اپنے دلائل مکمل کرلیں ۔ انہوں نی کہا کہ نیب نے جائیداد کی ملکیت ثابت کردی ہے،اور ملزمان نے جو موقف سپریم کورٹ میں اپنایا وہ غلط ثابت کیا.

جسٹس میاں گل نے سردار مظفر سے پو چھا کہ انکم ٹیکس گوشواروں کو کہاں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے؟

سردار مظفر نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس گوشواروں کو علیحدہ سے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا،گوشواروں کا چارٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کیا گیا تھا، جسٹس میاں گل نے ریمارکس دیے کہ یہ چارٹ ہم دیکھ چکے ہیں۔

اس پر سردار مظفر نے کہا کہ گوشوارے علیحده سے عدالتی ریکارڈ پر نہیں لائے گئے۔سردار مظفر کے جواب ہر جسٹس میاں گل نے تعجب کا  اظہار کرتے ہوئے کہا ‘لیں جی’۔

سردار مظفر کی جگہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے دلائل شروع کر دئیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے جب جہانزیب بھروانہ کو محاطب کرتے ہوئے کہا کہ اصل کرپشن میں تو ملزمان کو بری کیا گیا ہے اور آپ نے مان بھی لیا،اور قانون کی فکشن کے تحت ملزمان کو سزا دی گئی۔ تو ڈپٹی پراسیکیوٹر نے کہا کہ نائن اے فور الگ معاملہ ہے، اس میں شواہد نہیں تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نائن اے فائیو بھی کرپشن ہے اور معلوم ذرائع سے زیادہ جائیداد بنائی گئی جسے نیب نے عدالت میں ثابت بھی کیا۔

عدالت کے سامنے نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل کے دلائل جاری ہیں۔

گزشتہ سماعت کے دوران جب  نیب پراسیکوٹر نے  ایک مرتبہ پھر عدالت سے سماعت دو روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی تو جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ ‘ کیا یہ اچھی روایت ہے کہ ایک طرف دلائل مکمل ہوجائیں تو دوسری طرف سے وقت مانگا جارہا ہو جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں یہ ہدایات ملی ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ یہ چالاکی پر مبنی ہدایات ہیں جب کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے ہدایات دیں، کیا چیئرمین نیب نے یہ ہدایت دی جس پر سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ انہیں پراسیکیوٹر جنرل نے ہدایات دی ہیں۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے التواء پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، ایک ماہ سے درخواست زیر التواء ہے جس پر سردار مظفر عباسی اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ بات نہ کریں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں، کیوں بات نہ کروں۔

اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ انہیں پراسیکیوٹر جنرل نیب سے ہدایات لینی ہیں، تحریری کمنٹس داخل کرانے کے لیے مہلت دی جائے۔ اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر شائستہ اور خلاف روایت ہے، پہلے ریفرنس ٹرانسفر کیس سنا، اس وقت کوئی اعتراض نہیں آیا اور فیصلہ میرٹ پر آیا، کیس پر دلائل شروع کردیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ  عدالت کی کارروائی ہم نے ریگولیٹ کرنی ہے اور ہمارے سامنے سب فریق برابر ہیں۔

اس موقع پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز  نے نیب کی جانب سے التوا کی درخواست پر کہا تھا کہ پرائیویٹ پارٹیاں ایسا کرتی ہیں لیکن ادارہ ایسا کرے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگرچہ عدالت نے بعد میں نیب پراسیکوٹر کی درخواست منظور کی تھی تاہم عیر ضروری التوی مانگنے پر نیب پر 10 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔

اسلام اباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم پر دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں نواز شریف کو دس سال قید اور دس ملین پونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس کیس میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال قید اور 2.6 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی ہوئی تھی جب کہ مریم کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی  تھی۔ تینوں اس وقت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید کاٹ رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی و داماد نے احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔


متعلقہ خبریں