احمد فراز کو بچھڑے دس برس بیت گئے


اسلام آباد:

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے، جیسی شہرہ آفاق غزل کے خالق اور ملک کے ممتاز ترقی پسند شاعر سید احمد شاہ المعروف ’احمد فراز‘ کی آج دسویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے۔

12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہونے والے احمد فراز کے 14 مجموعہ کلام تنہا تنہا، درد آشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام سے شائع ہوئے۔

اردو، فارسی اورانگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرر بھی منسلک رہے۔

احمد فراز کی شاعری کا مرکز محبت اور غم جاناں تھا جس کی وجہ سے وہ نوجوانوں میں بے پناہ مقبول تھے مگر اس کے باوجود معاشرتی ناہمواریوں پر بھی ان کی شاعری اپنے ’وجود‘ کا بھرپور احساس دلاتی ہے۔

ساز و آواز سے منسلک اساتذہ اس بات پر متفق ہیں کہ جو نغمگی احمد فراز کی شاعری میں ملتی ہے وہ بہت کم شعرا کے کلام میں پائی جاتی ہے۔

ترقی پسند نظریات کے حامل احمد فراز کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور ہلال پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا گیا لیکن جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں وہ پابند سلاسل رہے۔ وہ تقریباً چھ سال قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ انہوں نے جلاوطنی بھی کاٹی۔

احمد فراز پاکستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے وہ شاعر ہیں جن کی غزلوں و نظموں کے تراجم انگریزی، روسی، جرمنی، ہندی، فرانسیسی اورسویڈش سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں کیے گئے۔

احمد فراز کی شعوری، فکری اور مسحورکن غزلوں و نظموں کے علاوہ ان کی فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ احمد فراز نے کبھی بھی باقاعدہ فلمی شاعری نہیں کی لیکن ان کی غزلیں و گیت زبان زد عام ہوئے مگر انہیں گنگنانے والوں کی اکثریت بھی اس بات سے لاعلم رہی کہ وہ احمد فراز کی تخلیق ہیں۔

احمد فراز کی فلمی شاعری میں رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں اور یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے کو بے پناہ شہرت ملی۔

احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے اور آئی ایٹ اسلام آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

ملک کے مختلف شہروں کے ادبی و سماجی حلقوں نے ممتاز شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا بھی اہتمام کیا ہے۔


متعلقہ خبریں