’گولیاں اور گالیاں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘


اسلام آباد: پاکستانی صحافی، ٹیلی ویژن میزبان اور تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا ہے کہ صحافی کا کام خبر دینا ہوتا ہے اور اگر وہ کسی ایک جماعت یا شخص کے بارے میں کوئی دعوی کرے تو اس بات کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس فرد کے بارے میں بات کی جا رہی ہے وہ مکمل پارسا اور نیک بن گیا ہے۔

ہم نیوز کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ میں ان تمام سوشل میڈیا عناصر کا شکر گزار ہوں جو میرے خلاف مہم چلا رہے ہیں، کیوں کہ انھوں نے میرے حق میں میری صحافی برادری کو متحد کر دیا ہے۔

سلیم صافی پاکستانی صحافت میں ایک جانا مانا نام ہیں، وہ ان دنوں سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے چلائی جانے والی خصوصی مہم کا نشانہ ہیں۔ اس مہم کے دوران ناصرف انہیں ذاتی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے پیشہ ورانہ کردار پر بھی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے۔

صبح سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ میں گولیوں اور گالیوں سے نہیں ڈرتا یہ میرا کیا بگاڑ لیں گی، ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوا جس کی وجہ سے مجھے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ ماضی میں میرے خلاف فتوے دیے جاتے تھے جو کہ بظاہر زیادہ سنگین معاملہ ہے، قوم پرست لوگ مجھے فوج کا لیڈر کہتے ہیں کچھ لوگ مجھے غدار کا لقب دیتے ہیں۔

سلیم صافی نے کہا کہ وہ احسان مند ہیں ان مہم چلانے والوں کے جن کی وجہ سے اوریا مقبول جان اور ہارون الرشید جیسے کئی اور صحافی جن سے ان کے نظریاتی اختلافات ہیں، متحد ہوئے ہیں اور انھوں نے میرے حق میں کئی کالم لکھے ہیں۔


ہم نیوز کے مارننگ شو صبح سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی نے واضح کیا کہ ان کے خلاف یہ مہم پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے باقدہ منظم اندازسے چلائی ہے۔

شو کی میزبان عنبر شمسی نے سوال کیا کہ ان سب معاملات پر ہم کیسے قابو پا سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اس معاملے میں متحد ہونے کی ضرورت ہے، خواتین صحافیوں کو بھی کئی بار نشانہ بنایا گیا ہے جس کی مجھے زیادہ تشویش ہے کہ خواتین کی حثییت سے ان کے لیے منفی تنقید اور عدم برداشت کے ساتھ آگے بڑھنا بہت مشکل امر ہے۔

عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ لیڈر اپنی تنظیم کا رول ماڈل ہوتا ہے اور جو رویہ لیڈر رکھتا ہے ویسا ہی اس کے ورکر بھی اپناتے ہیں، عمران خان صاحب کا رویہ ہی ایسا ہے کہ وہ نجی محفل میں ہوں یا میڈیا سے بات چیت، وہ ہر شخص کی ذاتیات کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ بھی پی ٹی آئی لے کر آئی ہے۔

معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے گزشتہ خطاب پر بھی میں نے اپنا تبصرہ کیا تھا، باقی صحافیوں یا لوگوں کا نظریہ مجھ سے مختلف ہو سکتا ہے مگر اس میں بھی عدم برداشت دکھائی گئی اور مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہمارے نوجوانوں میں اس حد تک برداشت کا مادہ کم ہو جانا ایک تشویش ناک بات ہے۔


متعلقہ خبریں