پانی کی تقسیم: سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

پانی کی تقسیم: سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟ | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: سندھ طاس کے نام سے پہچانے جانے والا معاہدہ دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کی یادداشت ہے جس پر دونوں ملکوں نے 1960 میں اتفاق کیا۔

1948 میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کر دیا گیا، جس کے بعد انسانی ضرورت سے متعلق بنیادی معاملہ کو چھیڑنے پر دونوں ملکوں میں موجود کشیدگی بڑھ گئی۔

کئی برس تک معاملات یونہی چلتے رہے جس کے بعد ستمبر  1960 میں کراچی میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا، جس کا ضامن عالمی بینک بنا۔

معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ ،جہلم اور چناب سے سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ جب کہ پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا کنٹرول بھارت کو دے دیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے صدر ایوب خان اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔

سندھ طاس معاہدہ طے پانے کے بعد سے پاکستان اوربھارت کے درمیان باقاعدہ کئی جنگیں ہوئیں تاہم یہ معاہدہ ایسی کیفیت میں برقرار ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے مسلسل نئی دہلی کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔

اسی معاہدہ سے متعلق معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے متعدد دور ہوئے ہیں۔ ایسا ہی مذاکراتی دور طے تھا جس کا انعقاد بھارتی وفد کی آمد میں تبدیلی کی وجہ سے ملتوی ہو گیا تھا۔

بھارت کے نو رکنی وفد کی قیادت بھارتی کمشنر سندھ طاس پردیپ سکسینہ کریں گے، قائم مقام کمشنر سندھ طاس مہر علی شاہ  پاکستان کے وفد کی قیادت کریں گے۔

مذاکرات کے ایجنڈے میں پاکستانی دریاؤں پر بھارت کے پہلے اسٹوریج ڈیم اور سب سے بڑے بجلی گھر پاکل دول کا متنازع ڈیزائن بھی شامل ہے۔

بھارت اس ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے چناب کا ایک لاکھ آٹھ ہزار ایکڑ فٹ پانی روک سکے گا جسے پاکستان معاہدے کی بنیادی شقوں کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔

پاکستان گزشتہ چھ سال سے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے اور اس کے آپریشن سے متعلق ڈیٹا فراہم نہ کرنے پر احتجاج کر رہا ہے۔


متعلقہ خبریں