پاکپتن: خاتوں اول بشری بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن کے درمیان مبینہ تنازعہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیربحث ہے اور جقائق سامنے آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا کے صارفین نے فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے ہیں۔
ڈسڑکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) رضوان گوندل کے تبادلے کو لے کر سوشل میڈیا پر جو کہانی بیان کی جا رہی ہے پولیس نے سرکاری طور پر اس سے مختلف موقف اختیار کیا ہوا ہے، فضا میں پھیلی اس دھند میں کچھ لوگ خاتون اول پربھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں حالانکہ اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔
سوال یہ ہے کہ محترمہ بشری بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا کا اس ملک میں کیا سٹیٹس ہے ؟ انہیں کس حیثیت میں پروٹوکول دیا جا رہا ہے ؟
— Sabookh Syed (@SaboohSyed) August 28, 2018
سوشل میڈیا پر پھیلی کہانی کے مطابق پولیس نے رات گئے معمول کی چیکنگ کے لیے خاور مانیکا کی گاڑی روکی تو وہ اس پر برا مان گئے اور ڈی پی او رضوان گوندل سے پولیس کی شکایت کر دی۔ ڈی پی او نے تحقیقات کیں تو پولیس اہلکاروں کی کوئی غلطی ثابت نہ ہوئی تاہم ڈی پی او پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خاورمانیکا سے معافی مانگیں۔ رضوان گوندل کے انکار پر ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔
We didnt vote for Imran Khan to replace Sharif family with #KhawarManeka ‘s family. Strict action should be taken against Maneka family for trying to be above the law. This should NOT happen in #NayaPakistan.
— ENGIYAH (@yasiralihamza) August 28, 2018
دوسری جانب انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کلیم امام نے اپنے باضابطہ موقف میں کہا ہے کہ ڈی پی او کو غیرذمہ دارانہ رویے پر تبدیل کیا گیا ہے۔ آئی جی کے مطابق ایک شہری سے پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی کے معاملے پر ڈی پی او نے غلط بیانی کی۔
اس معاملے میں کون سچا اور کون جھوٹا، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا یا تحقیقاتی رپورٹ، لیکن سوشل میڈیا پر یہ معاملہ پوری شدت سے جاری ہے۔