صدارتی امیدواروں کے رابطے، اپوزیشن کی تقسیم برقرار


اسلام آباد: صدارتی انتخابات کے لیے میدان میں اترنے والے امیدواروں نے رائے دہندگان سے رابطے شروع کر رکھے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں تمام تر کوششوں کے باوجود مشترکہ امیدوار پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن میں پائی جانے والی تقسیم در تقسیم کا براہ راست فائدہ حکومتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو پہنچے گا جن کی پوزیشن عددی اعتبار سے کافی مستحکم ہے۔

گزشتہ شب پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلا س کے بعد پی پی پی کا وفد مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچا، جہاں مذاکرات کے بعد سابق وزیراعظم اور پی پی پی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ مولانا کی جماعت ہمارے صدارتی امیدوار کی حمایت کرے۔

مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ آصف علی زرداری اور اعتزاز احسن کے ساتھ میرے ذاتی مراسم ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار ہو۔

صدارتی انتخابات کے لیے متفقہ امیدوار کی کوششیں تو جاری ہی ہیں تاہم امیدوار ووٹ لینے کے لیے رابطوں میں بھی مصروف ہیں۔ مولانا فضل الرحمان آج کراچی پہنچے ہیں جہاں وہ جی ڈی اے، ایم کیوایم اورپاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ جے یو آئی (ف) کا اعلیٰ سطحی وفد صدارتی انتخاب میں ان جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

صدارتی انتخاب کے متعلق حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے بلائے گئے پاکستان پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے متعلق ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی رہنمائوں نے بیرسٹراعتزاز احسن کا نام واپس لینے کے آپشن کی مخالفت کی ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قابل احترام ہیں مگر ہمیں سیاسی فیصلہ کرنا ہے اور پیپلز پارٹی اپنی اصولی سیاست پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔

ہم نیوز کو ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ  پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ان کے تین امیدوار ہیں اعتزاز احسن، اعتزاز احسن اور صرف اعتزاز احسن۔بلاول بھٹو زرداری کی رائے سے شرکائے اجلاس کو آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ بیرسٹر اعتزاز احسن ہی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کے حتمی امیدوار ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد میں واضح اکثریت کے حصول میں ناکام رہنے والی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اعلان تو کرچکی ہیں لیکن تاحال وہ اپنی صفوں میں اتحا د پیدا نہیں کرسکی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی صفوں میں پائی جانے والی دراڑ کا عملی اظہار پہلی مرتبہ اس وقت ہوا تھا جب وہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر پہنچی تھیں۔ متعدد اہم رہنما اس موقع سے غائب رہے تھے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے انتخاب کے وقت بھی ٹوٹ پھوٹ و تقسیم کا شکار رہیں اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان بآسانی وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے۔

پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے وزیراعطم پاکستان کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا اور وزارت عظمیٰ کے دونوں امیدواروں عمران خان و شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا تھا۔


متعلقہ خبریں