پاک بھارت آبی تنازعہ، مذاکرات کا پہلا دور ختم

دریائے چناب میں پانی کی سطح بلند، چنیوٹ میں سیلاب کا خطرہ

لاہور: پاک بھارت آبی تنازعہ پر جاری مذاکرات کا پہلا دور بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گیا ہے۔

لاہور میں ہونے والے پاک بھارت مذاکرات کے پہلے دور میں 9 رکنی بھارتی وفد کی سربراہی پی کے سیکسینا جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی پاکستان انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے کی۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے پکل ڈل اور لوئر کلنائی کے منصوبوں پر اعتراضات بدستور برقرار ہیں۔ پکل ڈل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے مارو سدر پر بنایا جا رہا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب کا  دایاں کنارہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان حکام نے پکل ڈل اور لوئر کلنائی پن بجلی گھروں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا ہے اور بھارت سے پکل ڈل پن بجلی ذخیرہ کرنے کی سطح  میں 5 میٹر کمی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پکل ڈل کے سپل ویز کے دروازوں کی تنصیب میں سطح سمندر سے 40 میٹر اونچائی کا  مطالبہ بھی کیا ہے۔

پاکستانی وفد نے مطالبہ کیا کہ پکل ڈل پن بجلی گھر کی جھیل بھرنے اور وہاں سے پانی چھوڑے کا طریق کار بھی واضح کیا جائے۔

لاہور میں جاری مذاکرات کا دوسرا دور کل جمعرات شام پانچ بجے نیسپاک ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہوگا۔ مذاکرات میں پاکستانی ماہرین کے دورہ کشمیر کے حوالے سے بھی بات ہو گی۔

سندھ طاس معاہدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے بعد بھارتی وفد 31 اگست کو واپس روانہ ہو گا۔

پاک بھارت آبی تنازعہ پر 2013 سے اب تک مذاکرات کے 7 راؤنڈز ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے مشترکہ انڈس واٹر کمیشن کا 114 واں اجلاس مارچ 2018 کو نئی دہلی میں منعقد ہوا تھا جس میں پاکل دل، لوئر کلنائی اور ریٹل ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر بات ہوئی تھی۔

پاکستان کا اس سلسلے میں مؤقف ہے کہ یہ پراجیکٹ چناب بیس میں ہونے کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ بھارت تسلسل کے ساتھ پاکستانی مؤقف تسلیم کرنے سے انکار کرتا آیا ہے۔

سندھ طاس معاہدے پر 1960 میں دستخط کئے گئے تھے۔ جس کے تحت سندھ، جہلم اور چناب نامی دریاؤں کا پانی پاکستان جب کہ راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لئے مختص کیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں