‘آنگ سان سوچی کو استعفی دے دینا چاہیے تھا’


لندن: اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سبکدوش ہونے والے سربراہ نے کہا ہے کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو گزشتہ سال میانمار کی فوج کی جانب سے ملک کی لسانی اقلیت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کاروائیوں پر مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ زید رعد الحسین نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد پر فوج کی صفائی دینے کے بجائے دوبارہ گھر کے اندر نظر بند ہو جانا چاہیے تھا۔

بدھ مدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت کے ملک میانمار کی فوج پر روہنگیا مسلماںوں کی منظم طور پر نسل کشی کرنے کا الزام لگتا رہا ہے جس کی فوج کی جانب سے مسلسل تردید کی گئی ہے۔  تاہم پیر کے روز اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا آبادی کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق میانمار کی فوج کے اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی اور جنگی جرائم میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ رخائن ریاست میں فوج نے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ علاقے سے نکل جائیں اور اِس آپریشن کے دوران نسل کشی کے شواہد بھی ملے ہیں۔

یہ افسوسناک انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ رخائن کے علاوہ کاچین اور شان نامی ریاستوں میں بھی جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور یہ تمام اقدامات نسل کشی کے تحت قابل تعزیر ہیں۔

انہی حقائق کی مناسبت سے سلامتی کونسل سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کو اس رپورٹ پر کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کرے، یا خصوصی عدالت تشکیل دے کر ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تا کہ فوجداری تفتیش کی روشنی میں ایسے مبینہ ملزمان کو سزا سنائی جائے۔

اقوم متحدہ کی رپورٹ میں آنگ سان سوچی پر روہنگیا کے خلاف تشدد روکنے میں ناکامی کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

زید عرد الحسین نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ آنگ سان سوچی اس پوزیشن میں تھیں کہ وہ اس حوالے سے کچھ کر سکتیں۔ وہ خاموش رہ سکتی تھی بلکہ بہتر ہوتا کہ وہ مستعفی ہوجاتی، ان کو برمی آرمی کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

نوبل انعام یافتہ سوچی 1989 اور 2010 کے درمیان تقریبا 16 سال تک میانمار کے فوجی جنتا کی جانب سے گھر پر  نظر بند رہیں۔ روہنگیا کے معاملے پر آنگ سان سوچی بہت ذیادہ تنقید کی زد میں رہی اور وقتا فوقتا ان سے نوبل انعام واپس لینے کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

بدھ کے روز نوبل کمیٹی نے کہا ہے کہ آنگ سان سوچی سے نوبل انعام  واپس نہیں لیا جا سکتا، میانمار کی رہنما کو 1991 میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں