بھاری بستوں کو ’پھولوں‘ کی طرح ہلکا کرنا پڑے گا


اسلام آباد: صبح خوشی خوشی اسکول جانے والے بچے جب وین سے گیٹ پہ اترتے ہیں اورڈرائیور حضرات بھاری بستوں کا بوجھ ان کے کاندھوں پہ منتقل کرتے ہیں تو وہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال میں کلاس روموں تک جاتے ہیں۔

ان معصوم و کمسن بچوں کو اسکول چھوڑنے آئے والدین بھی اس صورتحال کو دیکھ کر شدید ’اذیت‘ محسوس کرتے اور باقاعدہ کڑھتے بھی ہیں مگر خود کو مجبور و لاچار محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

عمومی مشاہدے کے مطابق اکثر بچے وزنی بستوں سے اس حد تک گھبراتے ہیں کہ وہ باقاعدہ رونا شروع کر دیتے ہیں جس کے بعد والدین انہیں بمشکل اسکول کے اندر جانے پر آمادہ کر پاتے ہیں۔

بھاری بستوں کے وزن کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے متعدد اسکول وین ڈرائیوروں نے ’ہم نیوز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ روزانہ درجنوں بچوں کے بھاری بستے اٹھانا خود ان کے لیے ’وبال‘ بن گیا ہے اوراب تو وہ بھی بستے نما ’بیگوں‘ سے خوف کھانے لگے ہیں۔

طبی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ بھاری بستے بچوں کے لیے اس حد تک وبال جان بن گئے ہیں کہ وہ باقاعدہ جسمانی و دماغی عارضوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔

اسکول بستوں کے متعلق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھاری بستے گردن کے مہروں اور ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرتے ہیں، قد کی بڑھوتری پراثرانداز ہوتے ہیں اور مسلسل بھاری بستے اٹھانے سے بچوں کی یادداشت کی صلاحیت بھی متاثرہوتی ہے۔

ڈپٹی ایم ایس عباسی شہید اسپتال کراچی ڈاکٹر نعمان اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بچوں  پر اتنا بوجھ ہونے سے ان کی ذہنی و جسمانی نشونما خراب ہوسکتی ہے‘‘۔

والدین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اسکول میں اساتذہ تمام مضامین کی کتب منگواتے ہیں جسے سے بستے بھاری ہوجاتےہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر اساتذہ کلاس کے ٹائم ٹیبل پہ عمل کرتے ہوئے صرف وہ کتب منگوائیں جن کے پیریڈ ہونے ہیں تو بستوں کا وزن کم ہو سکتا ہے۔

کچھ والدین نے مسئلہ کے حل کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو کم سے کم ہوم ورک دے کر بھی بھاری بستوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اسلام آباد کی رہائشی صائمہ ساجد جو ایک سرکاری ادارے میں گزیٹیڈ افسر ہیں، کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا شیراز ابھی تین سال کا نہیں اور پلے گروپ کا اسٹوڈنٹ ہے لیکن اسکول میں اس قدر کام کراتے ہیں کہ وہ گھر آکر شدید تھکن کی شکایت کرتا ہے۔ اس پر افتاد یہ کہ دو سے تین صفحات کا ہوم ورک بھی دیتے ہیں جسے کرنے پر وہ آمادہ نہیں ہوتا۔

صائمہ ساجد اپنے ساڑھے چارسال کے بچے نمیر کے حوالے سے زیادہ پریشان ہیں جو روزآنہ گھر آکر ٹانگوں و کمر میں نہ صرف درد کی شکایت کرتا ہے بلکہ بسا اوقات سخت سردرد میں بھی مبتلا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر چیک اپ کے بعد صرف یہی مشورہ دے سکے ہیں کہ بھاری بستے کا بوجھ کم کریں۔

ہم نیوز سے گفتگو میں متعدد والدین نے شکایت کی کہ حکومتی سطح پرپرائیوٹ اسکولوں کے نصاب کی نگرانی کے لیے مؤثر ادارہ نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ ہر اسکول اپنی مرضی و منشا سے نصاب ترتیب دیتا ہے جس کا منطقی نتیجہ بھاری بستوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

ہماری آئندہ کی نسلوں کو ذہنی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کس حد تک سنجیدگی سے اقدامات کرتی ہے؟ سماجی تنظیمیں کیسے اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں؟ اورخود والدین کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ اب بنا وقت ضائع کیے بچوں کو ضرورت سے زیادہ بھاری بھرکم بستوں سے نجات دلا کر انہیں بھی ’پھولوں‘ کی طرح  ہلکا پھلکا کرنا پڑے گا کہ انہیں اٹھانے والے کومل ’پھول‘ ہی تو ہیں۔


متعلقہ خبریں