‘جنوری سے جون تک 2322 بچے جنسی تشدد کا شکار’

'جنوری سے جون تک 2322 بچے جنسی تشدد کا شکار' | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد : بچوں سے جنسی زیادتیوں کے خلاف کام کرنے والی سماجی تنظیم ساحل نے 2018 کی پہلی ششماہی کے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ رواں برس جنوری سے جون کے دورانیہ میں 2322 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔

ساحل نے بچوں پر جنسی تشدد کے اعدادوشمار پر مبنی اپنی  ششماہی رپورٹ ”ساحل ظالم اعداد 2018“ کے نام سے جاری کی ہے۔ جس میں افسوسناک معاملہ کے اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ روزانہ 12 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کی نسبت بچوں پر تشدد میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعات پاکستان کے چاروں صوبوں ، اسلام آباد،آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان اور فاٹا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

ساحل کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں پر جنسی تشدد کے اعداد و شمار کے حوالے سےاس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لئے کل 91 قومی اورعلاقائی اخبارات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

سال 2018 کی پہلی ششماہی کے دوران ہونے والے واقعات میں بچوں کے اغوا کے 542 ، زیادتی کے360 ، اجتماعی زیادتی کے 92، بدفعلی کے381، اجتماعی بد فعلی کے 167 ، زیادتی کی کوشش کے 224 اور بد فعلی کی کوشش کے 112 ، بچوں کی شادیوں کے 55، بچوں کی گمشدگی کے 236 اور بدفعلی یا زیادتی کے بعد قتل کے57 واقعات پیش آئے۔

رواں سال جنوری سے جون کے دوران رپورٹ ہونے والے 2322 واقعات میں 1298 (56فیصد) بچیوں جب کہ 1024 (44فیصد) واقعات میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اعدادا شمار کے مطابق گیارہ سے 15 سال کے 622 جب کہ چھ سے دس سال کے درمیان کی عمر والے 526 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب سے رپورٹ ہوئے جو کہ مجموعی واقعات کا 65 فیصد ہیں جب کہ سندھ سے 25 فیصد، بلوچستان سے دو فیصد، خیبر پختونخواہ سے تین فیصد اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے بھی تین فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔ آزاد کشمیر سے 21 جب کہ گلگت بلتستان سے دو واقعات رپورٹ ہوئے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کل واقعات کا 74 فیصد جب کہ شہری علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کل واقعات کا 26 فیصد ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے 89 فیصد واقعات کو رجسڑڈ کیا جب کہ 32 واقعات کی رپورٹ پولیس نے درج کرنے سے انکار کیا۔ 17 واقعات پولیس کے پاس درج نہیں کروائے گئے جب کہ 196 واقعات کے بارے میں اخبارات میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

ساحل کے سینئر پروگرام آفیسر میڈیا ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ قصور میں معصوم زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کئے جانے والے واقعے کے بعد بڑی تعداد میں واقعات سامنے آنا شروع ہوئے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ اس واقعے کے بعد لوگوں نے ایسے واقعات کو چھپانے کے بجائے سامنے لانے اور انصاف کے حصول کے لیے کوششیں کی۔ جس کا کریڈٹ میڈیا کو جاتا ہے کیوں کہ میڈیا نے اس حوالے سے عوام میں شعور و آگہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں بچوں پر تشدد کو ایک بہت اہم مسئلہ تسلیم کیا اور اس کی روک تھام اور سدباب کے لئے پولیس کو مزید بہتر کام کرنے کی ہدایت بھی کی۔


متعلقہ خبریں