جنید جمشید نے ایک زندگی میں کئی ’زندگیاں‘ جیں


پامسٹری اور آسٹرالوجی کی ’دنیا‘  میں کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں دماغ کی دو لکیریں ہوتی ہیں وہ اپنی فانی ’زندگی‘ میں ایک سے زائد ’جنم‘ لیتا ہے۔ اس کے معنی یہ تصور کیے جاتے ہیں کہ ایسا شخص ایک سے زائد   شعبوں میں بے پناہ کامیابی و شہرت سمیٹتا ہے اوراس طرح ایک زندگی میں کئی ’زندگیاں‘ جی لیتا ہے۔

پاکستان میں اس حوالے سے بطورخاص وزیراعظم پاکستان عمران خان کی مثال دی جاتی ہے جنہوں نے پہلے دنیائے کرکٹ میں عالمی شہرت سمیٹی، پھر سماجی میدان میں قدم رکھا تو شوکت خانم اسپتال جیسے بڑے ’خواب‘ کو شرمندہ تعبیر کردیا، شعبہ تعلیم میں نمل یونیورسٹی کے ذریعے علم کی شمع روشن کی اورپھر میدان سیاست کے خارزار ’باغیچے‘ میں پہنچے تو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال کر ان تمام دانشوروں و تجزیہ کاروں کے اندازوں پر خط تنسیخ کھینچ دی جن کے خیال میں وہ پاکستانی سیاست کے دوسرے ’اصغرخان‘ تھے۔

یہ تو معلوم نہیں کہ ایک وقت کے ممتاز گلوکار اورفانی زندگی کے دوسرے ’جنم‘ میں عالمی شہرت یافتہ نعت خواں کہلانے والے جنید جمشید کے ہاتھ میں بھی دماغ کی دولکیریں تھیں یا نہیں؟ مگر اس سے مفر نہیں کہ ایک زندگی میں انہوں نے بھی متعدد ’زندگیاں‘ جیں اورشہرت، دولت و مقبولیت کی ان بلندیوں کو چھوا کہ جس کا عام افراد پوری زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

تین ستمبر 1964 کو کراچی میں پیدا ہونے والے جنید جمشید نے انجینئرنگ کی تعلیم لاہور سے حاصل کی لیکن اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبورہو کر وہ اسی دوران وائیٹل سائنز گروپ میں بطور لیڈنگ سنگر گانے لگے۔

’’دل دل پاکستان‘‘ جیسا شہرہ آفاق ملی نغمہ جب 1987 میں سماعتوں سے ٹکرایا تو وہ ہر نوجوان دل کی دھڑکن بن گئے اور نہ جانے کتنی آنکھوں میں خواب بن کر بھی اترے۔

پاپ سنگر کے طور پر ان کے البم  وائٹل سائنز ون، وائٹل سائنز ٹو،اعتبار، ہم تم، تمھارا اور میرا نام، اس راہ پر، دی بیسٹ آف جنید جمشید اور دل کی بات‘ کے نام سے ریلیز ہوئے تو انہیں وہ شہرت ملی جو کم کم کسی کے نصیب میں آتی ہے۔

پاپ سنگر کے طور پر 15 سال تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے والے جنید جمشید نے اچانک اس طرح گلوکاری کو خیرباد کہا کہ انہیں متعدد آرگنائزرز کے پیسے واپس کرنے پڑے کیونکہ آئندہ ڈیڑھ دو سال تک کے ان کے پروگرام طے تھے۔

جنید جمشید نے اس کے بعد اپنی زندگی دین اسلام کے فروغ کے لیے وقف کردی اور پھر دنیا نے انہیں بطور نعت خواں دیکھا۔ اسی دوران انہوں نے بوتیک کا کام شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت عطا کی کہ جس کا کئی فیشن ڈیزائنرز صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

بلاشبہ وہ ایک متاثرکن شخصیت کے مالک تھے اورپوری ایک نسل کو متاثر کرکے سات دسمبر 2016 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کا انتقال پی آئی اے کی فلائیٹ 661 کے حادثے کے نتیجے میں ہوا۔

شاید! انہیں ’بلانے‘ کی بہت جلدی تھی جبھی ایک مختصر سی زندگی میں وہ کئی زندگیاں جلدی جلدی جی گئے اوررہتی دنیا تک کے لیے اپنے نقش ثبت کرگئے۔

سنگر چورنگی، کورنگی کراچی میں ان کے نام سے ایک نہایت خوبصورت مسجد بھی ہے جہاں لوگ جب نماز ادا کرتے ہیں تو جنید جمشید کو بے ساختہ یاد کرکے ان کی مغفرت اوردرجات کی بلندی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔

جنید جمشید کو 2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا اور2014 میں انہیں دنیا کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں بھی شامل کیا گیا۔


متعلقہ خبریں