جعلی اکاؤنٹس کیس: احسان صادق جے آئی ٹی کے سربراہ مقرر

سپریم کورٹ: راولپنڈی خود کش دهماکے کا ملزم عمر عدیل خان بری

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈیشنل ڈی جی کرائم ونگ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) احسان صادق کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا سربراہ مقرر کردیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے  35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ گزشتہ روز کیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ جے آئی ٹی سندھ میں کام کرے گی اوراس کی سیکیورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے۔

عدالت عظمیٰ نے جاری کردہ حکمنامے میں پابند کیا ہے کہ جے آئی ٹی ہر 15 دن میں سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرے گی۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان  ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ کررہا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے گزشتہ سماعت پر ریمارکس دیے تھے کہ 35 ارب روپے کا فراڈ ہوا ہے، ہم ابھی کسی پر الزام نہیں لگا رہے ہیں لیکن ہم سچ کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق تشکیل دی جانے والی چھ رکنی جے آئی ٹی میں اسٹیٹ بینک سے ماجد حسین، نیب سے نعمان اسلم، ایس اسی سی پی سے محمد افضل، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر شاہد پرویز اورانکم ٹیکس سے عمران لطیف منہاس شامل کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جاری کردہ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کہیں بھی اپنی آسانی کوسامنے رکھ کر سیکریٹریٹ بناسکتی ہے، جے آئی ٹی کے پاس معاملے کی تحقیقات کے لئے تمام پی آر پی قوانین کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے اورجے آئی ٹی ، نیب و ایف آئی اے اینٹی کرپشن قوانین کے تحت تفتیش کرے گی۔

عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت ملک بھر کی ایگزیکٹو اتھارٹی اور ایجنسی جے آئی ٹی کی مدد و سپورٹ کریں گے، ہر 15 دن میں جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی اور پہلی رپورٹ 15 دن کے اندر جمع کرائی جائے گی۔ جے آئی ٹی کو تحقیقات شفاف بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے ڈی جی رینجرز کو پابند کیا ہے کہ تمام تفتیش کرنے والوں کو تحفظ فراہم کریں گے،گواہوں کو ضرورت کے مطابق تحفظ فراہم کیا جائے گا اور جے آئی ٹی تحقیقات سے متعلق کوئی بھی پریس ریلیز و معلومات جاری نہیں کرے گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے  ڈی جی ایف آئی اے کی تفتیش اسلام آباد منتقل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جاری کردہ فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر حالات ایسے پیدا ہوگئے تو تفتیش اسلام آباد منتقل کرنے کا جائزہ لیا جا سکتاہے۔ 

عدالت عظمیٰ کا پانچ  ستمبر کی سماعت کا تحریری فیصلہ 10 صفحات پر مشتمل ہے۔


متعلقہ خبریں