کلثوم نواز کی تدفین جاتی امرا میں ہو گی



اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کینسر کے عارضہ کے باعث 68 برس کی عمر میں لندن کے اسپتال میں انتقال کر گئی ہیں، ان کی نماز جنازہ ریجنٹ پارک مسجد میں ادا کی جائے گی جس کے بعد جمعہ کے روز میت پاکستان منتقل کی جائے گی۔

بیگم کلثوم نواز کو اگست 2017 میں لندن کے ہارلے کلینک لے جایا گیا جہاں انہیں کینسر تشخیص کیا گیا۔ جون 2018 میں دل کا دورہ پڑنے پر انہیں اسی طبی مرکز میں دوبارہ داخل کرایا گیا، جہاں وہ وفات تک زیرعلاج رہیں۔

حسین نواز نے ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی والدہ کے سرہانے موجود ہیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ بیگم کلثوم نواز انتقال کر چکی ہیں۔ حسن نواز اور شہباز شریف نے بھی کلثوم نواز کے انتقال کی تصدیق کی، ان کا کہنا تھا کہ طبیعت بگڑنے پر سابق خاتون اول کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔

حسین نواز کا کہنا تھا پرسوں سے والدہ کی طبیعت خراب تھی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ چکا تھا والدہ کا بلاوا آگیا تھا، آج بڑے غم کا دن ہے۔

بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بگڑی تو آج صبح ڈاکٹرز نے حسن نواز اور حسین نواز فوری طور پر ہارلے اسٹریٹ کلینک پہنچنے کی ہدایت کی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے جیل میں ہونے کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کے گھرانے کے تمام افراد لندن میں موجود نہیں تھے۔

ہارلے کلینک سے بیگم کلثوم نواز کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے بعد ان کی میت کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ کلثوم نواز کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے میت کی منتقلی میں دو سے تین روز کا وقت لگ سکتا ہے۔

کلثوم نواز کی میت کو لندن میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ریجنٹ پارک مسجد پہنچایا گیا گیا ہے۔ 13 ستمبر کو ان کی نماز جنازہ اسی مسجد میں ادا کی جائے گی جس کے بعد ان کی میت پاکستان روانہ کی جائے گی۔

کلثوم نواز کی میت کو پاکستان منتقل کرنے کے لیے شہباز شریف غیر ملکی ایئرلائن کی پرواز کیو آر 629 سے براستہ دوحہ لندن روانہ ہوئے ہیں وہ جمعہ کو واپس پہنچیں گے۔

کلثوم نواز کی میت پاکستان منتقل کرنے کے لیے ہائی کمیشن کو احکامات موصول ہو گئے ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی کمیشن نے ایک افسر کو شریف خاندان کی معاونت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق پاکستان ہائی کمیشن نے بیگم کلثوم نواز کا جسد خاکی پاکستان بجھوانے میں اپنے تعاون کی پیشکش کی جسے شکریے کے ساتھ رد کردیا گیا ہے۔ مرحومہ کے لواحقین نے کہنا ہے کہ میت کی پاکستان روانگی اور جنازہ کے تمام انتظامات خود کرر رہے ہیں۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ کلثوم نواز کی تدفین جاتی امرا میں کی جائی گی، جب کہ ان کی آخری رسومات لاہور میں ادا کی جائیں گی۔

ن لیگ کے رہنما صدیق الفاروق نے ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بیگم کلثوم نواز نے انتہائی نامساعد حالات میں جدوجہد کی اور ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کیا۔

بیگم کلثوم نواز اپنے شوہر نواز شریف اور دیور شہباز شریف کے ہمراہ۔ فوٹو مریم نواز

بیگم کلثوم نواز اپنے شوہر نواز شریف اور دیور شہباز شریف کے ہمراہ۔ فوٹو مریم نوازراولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو جیل حکام نے کلثوم نواز کے انتقال کی اطلاع دی۔ جس کے بعد انہیں جیل میں موجود کانفرنس روم میں بٹھا دیا گیا۔ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر باپ، بیٹی اور داماد آبدیدہ ہوگئے۔

نواز شریف اور مریم نواز کو جیل سے لندن فون کرنے کی اجازت دی گئی جس کے بعد انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے پاس موجود حسین نواز سے گفتگو کر کے تفصیل معلوم کی۔

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو اڈیالہ جیل سے پے رول پر رہا کر دیا گیا جس کے بعد تینوں بدھ کی شپ لاہور پہنچے۔ شریف خاندان کی رہائش گاہ جاتی امرا کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔

بیگم کلثوم نواز تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہیں۔

لاہور کے کشمیری گھرانے میں پیدا ہونے والی کلثوم نواز گاما پہلون کی پوتی تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی اس کے بعد لیڈی گریفن اسکول سے میٹرک کیا۔ ایف ایس سی اسلامیہ کالج جب کہ بی ایس سی، لاہور کے ایف سی کالج سے مکمل کیا۔ کلثوم نواز نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی، اس دوران ان کی نواز شریف سے منگنی ہو چکی تھی۔

بیگم کلثوم نواز کے بھائی عبدالطیف کی شادی بھی شریف خاندان میں ہوئی تھی اور یہی رشتہ داری اپریل 1971 میں نواز شریف سے ان کی شادی کا سبب بنی۔ عملی سیاست سے دلچسپی نہ ہونے کے باعث کلثوم نواز خاتون خانہ ہونے کو ترجیح دیتی رہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد جب نواز شریف کو جیل جانا پڑا، تو ان کی رہائی کی مہم چلانے کے لئے کلثوم نواز سیاسی میدان میں فعال ہوئیں۔ 22 جون 2000 میں ان کو مسلم لیگ ن کی قائم مقام صدر بنا دیا گیا جس کے بعد وہ دو برس تک پارٹی کی سربراہی کرتی رہیں۔

اپنے شوہر نواز شریف کی گرفتاری کے خلاف بیگم کلثوم نواز نے کاروان تحفظ پاکستان کے عنوان سے ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام کی پاداش میں انہیں آٹھ جولائی 2000 کو نظر بند کر دیا گیا۔ رکاوٹوں کے باوجود بیگم کلثوم نواز چند لیگی کارکنوں کے ساتھ لاہور کے علاقہ جیل روڈ انڈر پا س پہنچ گئیں جہاں سے پولیس ان کی گاڑی کو کرین کے ذریعے جی او آر لے گئی، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

گزشتہ برس سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد بیگم کلثوم نواز نے این اے 120 سے ن لیگ کے ٹکٹ پرالیکشن لڑا اور تقریباً 60 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کلثوم نواز کی وفات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ہدایت کی حکومت کلثوم نواز کی فیملی اور لواحقین کو قانون کے مطابق تمام سہولیات فراہم کرے۔

عمران خان نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مرحومہ کے لواحقین کو تمام ضروری سہولیات کی فراہمی میں معاونت کی ہدایت بھی کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کلثوم نواز کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔


متعلقہ خبریں