لہری اورکمال ایرانی کی برسیاں


کراچی: سفیراللہ صدیقی المعروف لہری اور کمال ایرانی کی برسیاں عقیدت و احترام سے منائی گئیں۔ محرم الحرام کے تقدس کے پیش نظر مرحومین کی ارواح کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کی گئی اورخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جانے والی روایتی تقاریب کے انعقاد سے اجتناب برتا گیا۔

اداکارلہری کو دنیائے فانی سے گزرے چھ سال ہوچکے ہیں جب کہ فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے  باکمال اداکار کمال ایرانی 29 سال قبل داغ مفارقت دے گئے تھے۔

1929 کو پیدا ہونے والے لہری  کی پہلی فلم ’انوکھی‘ تھی جو 1956 میں ریلیز ہوئی تھی۔ مرحوم کی آخری فلم ’دھنک‘ تھی جو 1986 میں بنی تھی۔

30 سال پر محیط اپنے فلمی کیرئیر میں لہری نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں صرف تین پنجابی فلمون میں کام کیا اورباقی ان کی تمام فلمیں اردو زبان کی تھیں۔

فلمی ناقدین کے مطابق لہری طنز و مزاح کے جملوں کو اس طرح برتتے تھے کہ فلم بین عش عش کر اٹھتے تھے۔ ان کے متعلق کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ کئی فلموں میں انہوں نے بنا کسی اسکرپٹ کے اپنے برجستہ جملوں سے داد سمیٹی۔

ان کی شہرہ آفاق فلموں میں دل لگی، تہذیب، انسان بدلتا ہے، دیور بھابھی، زنجیر، جلتے سورج کے نیچے، پھول میرے گلشن کا، رات کے راہی، فیصلہ، جوکر، آگ، تم ملے پیار ملا، بہادر، نوکر، بہاریں پھر بھی آئیں گی، افشاں اور رم جھم شامل ہیں

 لہری نے نگار سمیت درجنوں ایوارڈ حاصل کیے۔ 13ستمبر 2012ء کو کراچی میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ ذیابیطس اورفالج کے عارضے میں مبتلا تھے۔

 کمال ایرانی کا اصلی نام سید کمال الدین صفاوی تھا۔ کمال ایرانی نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز سید فضل احمد فضلی کی فلم ’چراغ جلتا رہا‘سے 1961ء میں کیا۔ فلموں کے علاوہ انہوں نے ٹی وی اور تھیٹر پر بھی کام کیا۔ منفی کراداروں کی ادائیگی میں انہیں ملکہ حاصل تھا اورفلم بین بھی انہیں پسند کرتے تھے۔

پاکستان فلم انڈسٹری جب بحرانی کیفیت کا شکار ہوئی اورآباد اسٹوڈیوزمیں ویرانی نے ڈیرے ڈالنے شروع کیے تو وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے۔

کمال ایرانی کی قابل ذکر فلموں میں خان بہادر، آ ئینہ ، بہارو پھول برساؤ، مہران جمالی، سوہنی مہینوال اور سنگدل شامل ہیں۔

انہوں نے 100 سے زائد فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ۔ کمال ایرانی 13ستمبر 1989ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔


متعلقہ خبریں