چیف جسٹس کا منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس

فوٹو: فائل


 اسلام آباد: پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے منرل واٹرکمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر میں کام کرنے والی منرل واٹر کمپنیوں سے پانی کے استعمال سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔

جمعہ کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کٹاس راج مندر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےعدالت کو بتایا کہ مری بروری کمپنی نے اپنا ڈیٹا ہمیں دے دیا ہے، نیسلے اوردیگرمنرل واٹر کی کمپنیوں سے ڈیٹا ابھی آنا ہے، تو چیف جسٹس نےاس معاملے پرازخود نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نوٹس کیس کی سماعت کل لاھور میں کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت یہ دیکھنا چاھتی ہے کہ منرل واٹر کمپنیاں کتنا پانی کیسے اورکہاں استعمال کرتی ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ لوگوں کو علم نہیں کہ پانی کتنا قیمتی ہوتا جارہا ہے، اچھی بات ہے کہ منرل واٹرکمپنیوں کا ڈیٹا آپ حاصل کررہے ہیں۔

عدالت نے پنجاب میں قائم سیمنٹ فیکٹریوں پر پانی کے استعمال کے نئے ریٹس لاگو کرنے سے متعلق رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ 

سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نےعدالت کو بتایا کہ ہم نے پانی کے نرخ فی کیوبک میٹر کے حساب سے طے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریٹس طے کرکے لوکل کونسل کو بھیج دیے ہیں۔

جب سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پانی کے ریٹس ان تین سیمنٹ کمپنیوں پرلاگو کریں گے، پھر پورے صوبے میں نافذ کریں گے توچیف جسٹس نے کہا کہ پانی کے نرخوں کو صرف تین سیمنٹ فیکٹریوں تک محدود نہ کریں۔

سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نےکہا کہ ایک ماہ میں پورے صوبے میں پانی کی قیمت پرعمل کروائیں گےتو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ ایک ماہ میں کیوں؟ یہ تو گھنٹوں کا کام ہے، آپ نے ریٹس تین سیمنٹ فیکٹریوں کے لئے طے کر دیے ہیں بس وہ باقی فیکٹریوں پرلاگو کرنے ہیں، اس کے لئے وقت کیوں چاھیئے؟ 

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پانی اب سونے کی قیمت جتنا ہوگیا ہے۔ 

سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کی سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اب وقت کرسیوں پر بیٹھ کر کام کرنے کا نہیں۔ سیکشن افسر کو فائل بھیج دی اورخود کرسی پر بیٹھ گئے، کنگھی لگانے کے لئے اب ایسا نہیں ہوگا۔ سیکریٹری صاحب جاگرز پہن کر دفتر سے نکلیں اور دورے کریں کہ کیا ہو رہا ہے؟

عدالت نے سیکٹری لوکل گورنمنٹ کو اس سلسلے میں منگل تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ 

اسلام آباد میں صنعتی اورماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس

چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم اسی بنچ نے اسلام آباد میں صنعتی اورماحولیاتی آلودگی سےمتعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے ڈائریکٹرانسانی حقوق سیل سپریم کورٹ اور ڈی جی ماحولیات کو حکم دیا کہ وہ اسلام آباد کے صنعتی یونٹس کا معائنہ کرکے پانچ دن میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ معائنہ کر کے بتایا جائے کتنے صنعتی یونٹس فعال ہیں اورکونسے یونٹس نے ابھی تک آلودگی روکنے کیلئے اقدامات نہیں کیے؟ ہمیں مفصل اورجامع رپورٹ دی جائے تا کہ صورتحال واضح ہو سکے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جارہا ہے کہ صنعتی آلودگی روکنے کیلئے اقدامات کر لیے گئے ہیں، جس پر ڈی جی تحفظ ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹریوں نے کوئی اقدامات نہیں کیے اور ہمیں معائنہ کی اجازت بھی نہیں دی، انہوں نے شکایت کی فیکٹریوں نے ہمیں واچ ڈاگ سے ڈاگ بنا دیا ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ مل مالکان کو عدالت کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں، یہ لوگ براہ راست لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، ہم ان کی پچاس پچاس لاکھ روپے کی سیکیورٹی ضبط کر لیں گے، جنھوں نے سیکیورٹی جمع نہیں کرائی ان سے آٹھ فیصد سود لیں گے اوریہ سارا پیسہ ڈیم میں جانا ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 24 ستمبر تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں