سفری ضرورت کیلیے کراچی میں 20ہزار بسوں کی ضرورت


کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی کی آبادی تو تیزی سے بڑھی لیکن پبلک ٹرانسپورٹ میں نہ تو اضافہ ہوا اور نہ ہی بہتری لائی جاسکی۔ ایک اندازے کے مطابق سفری ضرورت پوری کرنے کے لیے اس وقت کراچی کو 20 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی بسوں کی ضرورت ہے۔ 

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جانب سندھ حکومت کی توجہ نہ ہونا محض تاثر نہیں بلکہ حقائق اسے ثابت بھی کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر 2010 میں 25 ہزار بڑی چھوٹی بسیں اور کوچز چلتی تھیں جن کی تعداد کم ہو کر اب آٹھ ہزار رہ گئی ہے۔ 

بسوں میں سفر کرنے والے شہریوں کو اپنی منزل مقصود تک جانے کے لیے گھنٹوں بسوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مسافروں کو بسوں میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی  جب کہ ٹرانسپورٹرز کو 2011 سے بسوں کا کرایہ نہ بڑھائے جانے کا شکوہ ہے۔

60 کی دھائی میں کراچی میں شروع کی گئی بیڈ فورڈ کی بسیں آج بھی سڑکوں پر موجود ہیں جو انتہائی خستہ حال ہیں تاہم شہری انہیں بھی غنیمت سمجھتے ہیں۔

بس اونرز ایسوسی ایشنز کا کہنا ہے اب بھی شہر کے مختلف راستوں پر 100 سے زائد بیڈ فورڈ بسیں چلتی ہیں۔ دھواں چھوڑتی ان خستہ حال بسوں کو ٹریفک پولیس کی جانب سے فٹنس سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جاتا ہے۔

گلشن حدید سے ٹاور تک روزانہ 42 کلومیٹر کا سفر کرنے والے بینک ملازم وجاہت نسیم کا صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ وہ اپنے بیگ میں لیپ ٹاپ نہیں بلکہ اضافہ شرٹ، ٹائی، تولیہ، کنگا اور جوتے صاف کرنے کا سامان رکھتے ہیں کیوںکہ بس سے اترنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی جنگ سے واپس لوٹے ہیں۔

بسوں کی کمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شہر میں اب آٹھ اور نو سیٹرز چنگچی رکشوں کی بھر مار ہو گئی ہے، جو مختصر روٹ ہونے کے علاوہ ٹریفک کو متاثر کرنے کی بڑی وجہ بن رہے ہیں۔

کراچی کے شہری پُر امید ہیں کہ 2019 میں گرین لائن بس منصوبے کی تکمیل کے بعد انہیں سستی اور باعزت سفری سہولت فراہم ہو سکے گی۔  


متعلقہ خبریں