ڈی پی او پاکپتن کیس: وزیراعلی پنجاب نے معافی مانگ لی


اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلہ کے معاملہ پر دوبارہ انکوائری کی ہدایت کرتے ہوئے نیکٹا کے سربراہ خالق داد لک کو 15 دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پیر کے روز مقدمہ کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے انسپکٹر جنرل پنجاب کی ڈی پی او پاکتپن مقدمہ سے متعلق پیش کردہ رپورٹ اور اس کے مندرجات پر اظہار برہمی کے بعد مانگی گئی معافی مسترد کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

عدالت عظمی کی جانب سے طلب کیے جانے پر وزیراعلی پنجاب اور احسن جمیل گجر سپریم کورٹ پہنچے۔ احسن جمیل سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے سوال کیا کہ آپ کی وجہ سے وزیراعلی پھنس گئے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ میری وجہ سے نہیں پھنسے۔ میں ایک سائل ہوں درخواست لے کر گیا تھا۔

وزیراعلی پنجاب نے سپریم کورٹ کے سامنے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ عدالت عظمی نے وزیراعلی پنجاب کو آئندہ محتاط رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب سے بڑا صوبہ چلا رہے ہیں۔ کسی سے ڈکٹیشن نہ لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی صاحب! اگر صوبہ نہیں چلتا تو بتائیں کسی اور کو کہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وزیراعلی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سی ایم صاحب، آپ لوگوں کو بلا کر بات سنتے ہیں؟ سی ایم ہاؤس میں بغیر انٹری ایک شخص کو بلاتے ہیں۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیر اعلی بنا تو تین دن کے بعد رپورٹ ملی کہ مانیکا خاندان کے کچھ مسائل ہیں۔ میں نے ان پولیس والوں کو بلوا کر کہا کہ مسئلہ حل کریں۔

وزیر اعلی پنجاب نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ میرا بھی خیال تھا کہ پولیس اور دیگر افسران کے ساتھ خود ملوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک شخص کو پروٹوکول کے ساتھ انٹری کرواتے ہیں؟ کب سے جانتے ہیں۔ احسن جمیل کو؟

وزیراعلی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وہ احسن جمیل گجر کو الیکشن سے پہلے سے جانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایسے لوگوں کو بلوا کر پولیس کے بے عزتی کرواتے ہیں؟ جس پر وزیراعلی نے کہا کہ میں نے ان کو بلوایا اور خود چائے پیش کی۔ وزیر اعلی

چیف جسٹس نے کہا کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ یہ کیسے مانیکا خاندان کا گارڈین بن گیا۔ آئی جی نے پولیس فورس کی بے عزتی کروا دی ہے۔ یہ کیسے کہہ سکتا ہے ڈی پی او کو کہ میں تمہارا چہرہ دیکھنا نہیں چاھتا۔

عدالت عظمی کے سربراہ نے وزیراعلی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی صاحب اگر میں نے رابطے کیے تو سارے رابطے سامنے آجائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی کو تین دن ہوئے تھے ان کو علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کیا ہے، انکوائری کروا لیتے ہیں وزیر اعلیٰ سے تعلق کھل کر سامنے آجائے گا۔ چیف جسٹس نے نیکٹا سربراہ سے کہا کہ آئیں اور اس ایشو کی مکمل انکوائری کریں، ہمیں اس پر مکمل سچائی چاہیے، مجھے اگر پتہ چلا کہ آئی جی صاحب نے جو رپورٹ دی ہے اس میں کسی کی فیور ہےتو ٹھیک نہیں ہوگا۔

احسن جمیل گجر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے وزیراعلیٰ کے آفس جا کر آر پی او کو کہا کہ ان سے معافی مانگیں۔

قبل ازیں آئی جی سندھ (اس وقت پنجاب کے آئی جی) کلیم امام نے عدالتی حکم پر ڈی پی او تبادلے کے حوالے سے تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کی تاہم سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک بندے کو بچانے کے لیے رپورٹ میں سب اچھا لکھا ہے، ہم آپ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ آئی جی صاحب! آپ نے اپنے ہی افسران کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ رپورٹ میں جمیل گجر کہاں ہے، آج ہم نے انھیں بھی طلب کیا تھا؟

چیف جسٹس نے آئی جی کلیم امام سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ نے خود بنائی ہے یہ رپورٹ؟ کلیم امام نے جواب دیا جی سر، ہم نے کمیٹی بنائی اور تحقیقات کیں جس کے مطابق چار لوگ اس رات کمیٹی روم میں موجود تھے۔ ان میں ڈی پی او پاکپتن، آر پی او، احسن جمیل گجر اور وزیراعلی پنجاب شامل ہیں۔

چیف جسٹس رپورٹ کے مندرجات پر برہم

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں وہ گفتگو بتائیں جو ان لوگوں کے درمیان ہوئی، ہمیں باقی چیزوں سے کوئی غرض نہیں۔ آپ ایک شخص کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہے ہیں، آپ کی کیا رپورٹ ہے، کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ آپ نے کسی کا ساتھ دیا، آپ نے رپورٹ میں پولیس کی عزت کے لئے کچھ نہیں کیا، آپ اس قابل نہیں کہ آپ ملک میں کہیں کام کر سکیں۔

 چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلاتے ہیں کہ وہ آپ کے حوالے سے بتائیں۔

کلیم امام نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ میں اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ سے انصاف کی توقع کر رہے تھے، آپ ہم سے معافی مانگ رہے ہیں۔

آپ بار بار گجر کے گارڈین سرٹیفیکٹ کی بات کرتے ہیں، کیا آپ نے وہ سرٹیفیکیٹ دیکھا؟ آپ کیسی پولیس ہے کہ آپ گجر کو عدالت نہیں لاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لڑکی کے ساتھ ذیادتی پر سب کو دکھ  ہے، لیکن کیا آپ پولیس کے ساتھ زیادتی پر دکھی ہیں؟ کیسے آئی جی ہیں کہ پولیس کی حفاظت نہیں کر سکتے؟

چیف جسٹس نے عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ وہ بتائیں کب تک چیف منسٹر عدالت آ سکتے ہیں؟ عدالت نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور احسن جمیل گجر کو بھی طلب کر لیا تھا۔


متعلقہ خبریں