فوجی طیارے کی تباہی: ماسکو میں اسرائیلی سفیر کی طلبی


ماسکو: روس نے اپنے فوجی طیارے کو مار گرانے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ فوجی جہاز میں سوار 15 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق ماسکو میں وزارت خارجہ نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے باور کرایا کہ جہاز میں سوار افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی سفیرکو یہ بات خود روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بتائی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

روسی وزارت دفاع کا ابتدا میں یہ مؤقف سامنے آیا تھا کہ فوجی طیارہ شامی میزائلوں کا نشانہ بنا ہے لیکن اس کے بعد ماسکو کی جانب سے کہا گیا کہ لاذقیہ پر حملے میں اسرائیلی طیاروں نے روسی جہاز کو ڈھال بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس کا فوجی طیارہ تباہ ہوگیا۔

ماسکو کے مطابق طیارے کو شامی میزائل اس وقت لگا جب وہ اسرائیلی طیارے کو گرانے کے لیے فائر کیے گئے تھے۔ روس نے تاحال یہ نہیں کہا ہے کہ اس کے فوجی جہاز کو شامی میزائل نہیں لگا۔

ماسکو کے ذمہ دار ذرائع سے  خبررساں ایجنسیوں نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے جنگی جہازوں نے پیر کو آئی ایل-20 طیارے کو شامی دفاعی نظام کے قریب دھکیل دیا تھا جو اس کی تباہی کا سبب بنا۔

روسی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ اسرائیلی ہوابازوں نے روسی طیارے کو مجبور کیا کہ وہ شامی فضائی دفاعی نظام کی حدود میں آ ئے۔ 

اسرائیل کے اخبار ’ہیرٹز‘ کا کہنا ہے کہ روسی صدر پیوٹن نے پہلے ازخود یہ کہا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے جان بوجھ کر روسی فوجی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔

اسرائیلی اخبار نے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس حادثے کے بعد ماسکواسرائیل سے آزادانہ طورپر شام میں کارروائی کرنے کے اختیارات میں کمی کردے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے روسی فوجی جہاز کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو ایک حادثہ قرار دیا ہے۔

اس ضمن میں ماسکو کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ اسرائیل نے اپنی فضائیہ کی جانب سے کارروائی کرنے سے محض ایک منٹ قبل روس کو اطلاع دی تھی جو روسی طیارے کو خبردار کرنے اورمخصوص دائرہ کار سے نکالنے کے لیے ناکافی تھی۔

اسرائیل نے ماضی میں بھی جب شام میں فضائی کارروائیاں کیں تو اس نے بنا بتائے کیں البتہ گزشتہ دنوں اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اپنے فوجی حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے شام میں 200 ایرانی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

ماسکو کی وزارت دفاع کی جانب سے سب سے پہلے بتایا گیا تھا کہ اس کا ایک فوجی طیارہ بحیرہ روم پر پرواز کے دوران غائب ہوگیا ہے۔ روسی وزارت دفاع کا اس وقت مؤقف تھا کہ جب ہمارا فوجی طیارہ ریڈار سے غائب ہوا اس وقت  اسرائیل کے F-16 جنگی جہاز شام کو نشانہ بنارہے تھے۔

بی بی سی کے مطابق روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ان کے ریڈارز نے فرانسیسی لڑاکا بحری جہاز پر سے میزائل چلائے جانے کا پتہ چلایا لیکن فرانسیسی فوج کے ترجمان نے اس کی فوری تردید کردی۔

شامی حکومت کے ذمہ دار ذرائع سے برطانوی نشریاتی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ ایک بحری میزائل کا حملہ ہوا ہے جس کے ذریعے ساحلی شہر لاذقیہ کے متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حملے میں لاذقیہ میں ٹکنیکل انڈسٹریز کارپوریشن کے گوداموں میں قائم گولہ بارود کے گوداموں کو تباہ کیا گیا ہے۔

مارچ 2018 میں شام کے شہر لتاکیا میں روس کا ایک فوجی طیارہ  فوجی ہوائی اڈے پر گر پر تباہ ہو گیا تھا۔ روس اسی فوجی اڈے سے شام میں تمام کارروائیاں آپریٹ کرتا ہے۔

2015 میں روس نے شام میں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس ضمن میں ماسکو کا مؤقف تھا کہ وہ فوجی کارروائیاں شام کے صدر بشارالاسد کی درخواست پر کررہا ہے۔


متعلقہ خبریں