نواز شریف، مریم، صفدر کی سزائیں معطل، رہائی کا حکم


اسلام آباد: شریف خاندان کی سزاؤں سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی سزائیں معطل کر دی ہیں۔

عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ ہونے تک سزا معطل رہے گی۔ عدالت عالیہ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پانچ، پانچ لاکھ روپے کی ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔

اڈیالہ جیل سے ہائی کی تیاریاں

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ضمانتی مچلکے جمع کرا دیے گئے ہیں۔ رب نواز عباسی، واجد نواز عباسی اور محمد سخی عباسی نے ضمانتی مچلکے جمع کروائے۔

عدالتی فیصلہ کے وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود شہباز شریف، میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو لینے کے لیے اڈیالہ جیل روانہ ہوئے۔

نواز شریف نے عدالتی فیصلہ اپنے بیرک میں نصب ٹیلی ویژن پر دیکھا۔

ترجمان ن لیگ کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف و دیگر کو رہائی کے بعد خصوصی طیارہ کے ذریعے لاہور روانہ کیا جائے گا۔ شہباز شریف ان کے ہمراہ ہوں گے۔

اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر عدالتی فیصلے کے شدت سے منتظر رہے۔ تینوں کو سرکاری ٹی وی سے فیصلہ محفوظ ہونے کی خبرکا پتہ چلا۔ فیصلہ کا وقت قریب آتے ہی سپریٹنڈنٹ جیل اور دوسرے حکام بھی اڈیالہ جیل پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق آج ہی تینوں کو رہا کردیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ فیصلہ سنائے جانے سے قبل معاملہ پر 18 سماعتیں منعقد کی گئیں۔

بدھ کے روز نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، ایسا کوئی ریکارڈ دبئی میں موجود ہی نہیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا گلف اسٹیل تھی؟ تو پراسیکیوٹر نے کہا کہ گلف کمپنی تو موجود تھی۔ دبئی کی حکومت نے بتایا کہ 25 فیصد شئیرز کی فروخت کی کوئی دستاویزان کے پاس موجود نہیں، 12 ملین درہم کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اکرم قریشی نے کہا کہ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ گلف اسٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 1978 میں فروخت کیے گئے، 1980 میں باقی 25 فیصد شیئرز بھی عبداللہ قائد اہلی کو فروخت کر دیے گئے، ان 25 فیصد شیئرز کو فروخت کرنے کی رقم 12 ملین درہم ریکارڈ پر ہیں، کہتے ہیں کہ طارق شفیع نے جو رقم لی تھی وہ قطری کو دے دی، قطری نے وہ رقم لندن فلیٹس میں انویسٹ کی،  یہ وہ منی ٹریل ہے جو انہوں نے پیش کی ہے۔

پراسیکیوٹر نے مزید  کہا کہ رقم کس اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں، تفتیش سے ثابت ہوا کہ گلف اسٹیل ملز کے 25 فیصد شئیر فروخت کا معاہدہ جعلی ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ اسٹیل مل کو کون دیکھتا تھا؟ اس پر جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات کیں؟ اکرم قریشی نے جواب دیا  کہ امارات حکومت سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تھا۔

پراسیکیوٹر نیب نے یو اے ای حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے اور اس کا جواب بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ یو اے ای حکام نے جواب دیا کہ ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں، رقوم کی منتقلی کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اکرم قریشی نے بتایا کہ اماراتی حکام کے جواب کے مطابق اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ بھیجنے کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ 

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیا دفاع نے سپریم کورٹ میں سی ایم ایز جمع کرائی تھیں،پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ملزمان کی جانب سے وہ سی ایم ایز ہمارے پاس بھی جمع کرائی گئی تھیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ‘ہم’ سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور ‘ہم؛ کون ہیں؟ کس کے پاس دستاویزات جمع کرائی گئی تھیں؟ پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کے پاس سی ایم ایز جمع کرائی گئیں تھی، اس پر عدالت نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی نہیں ہیں، اس بات کو سمجھ لیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب دوسروں کی تحقیقات پر بھی انحصار کر سکتا ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ بزنس طارق شفیع نے بنایا؟ اکرم قریشی نے جواب دیا کہ جی طارق شفیع نے وہ کاروبار بنایا۔ عدالت نے مزید استفسار کیا کہ طارق شفیع نے 19 سال کی عمر میں اتنا کاروبار کیسے بنا لیا؟  جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے مطابق طارق شفیع کی عمر 1980 میں 19 سال تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی اتنی گہری تحقیقات کی بنیاد پر نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے کوئی تعلق نہیں بن رہا، پھر ہم کس طرح فرض کر لیں کہ یہ پراپرٹیز نواز شریف کی ہیں۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے جواب دیا، تو ملزمان عدالت میں کچھ ثبوت لے آتے کہ یہ کس کے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ساری کی ساری کہانی مریم کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ مریم نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس کی پاکستان یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں جب کہ بی وی آئی کی دستاویزات میں مریم نواز کو نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل اونر کہا گیا۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے بینفشل اونر ہونے کو چھپانے کی کوشش کی گئی،  نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے خود کہا کہ وہ والد کے زیر کفالت ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ گواہ رابرٹ ہیڈلے نے خود کہا کہ کیلبری فونٹ 2005میں موجود تھا اور ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس پرنیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ سر کبھی کوئی سوال خواجہ صاحب سے بھی پوچھ لیں۔  نیب پراسیکیوٹر کی بات پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بات تو لائٹ موڈ میں ہوگئی ،اچھی بات ہے، ہم نے انہیں بھی سنا ہے، کچھ سوالات ذہن میں تھے جو آپ سے پوچھے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹرسے پوچھا کہ نواز شریف کا تعلق ان فلیٹس سے کیسے ہے؟ اکرم قریشی نے کہا  میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں 17 سال کا بچہ ہوں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے برجستہ ریمارکس دیے کہ آپ لگتے بھی ہیں۔ ان ریمارکس پر عدالت میںن قہقہے لگ گئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کر کے کہا کیا سپریم کورٹ نے منی ٹریل لانے کا کہا جو وہ نہیں لا سکے، سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ نیب نے کیا چیزیں معلوم کرنی ہیں؟ اس پر اکرم قریشی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا طے کیا ہوا قانون اس میں نہیں آتا۔ عدالت نے استفسار کیا تو آپ کہتے ہیں جو چارٹ آپ نے پیش کیا تھا وہ غیر متعلق ہے؟

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا جی بالکل وہ غیر متعلق ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ہم پاکستان سے کوئی پیسہ لے کر نہیں گئے، انہوں نے کہا کہ 12 ملین کی رقم کو انویسٹ کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز کو صرف جعلی دستاویز جمع کرانے پر سزا ہوئی؟ اور کیا آپ کہتے ہیں کہ مریم نواز کو سزا درست ہوئی؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا جی بالکل درست ہوئی۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ اور کون سا کیس ہے جس میں یہ پرنسپلز اپلائی ہوئے۔ اکرم قریشی نے جواب دیا کہ حاکم علی زرداری کیس میں بھی ایسا ہوا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب کورٹ جے آئی ٹی میں جعلی دستاویز جمع کرانے پر سزا کا اختیار رکھتی ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دہا کہ جی بالکل، اس نے آمدن سے زائد اثاثوں میں معاونت کی۔ نیب کورٹ نے تو جعلی دستاویز جمع کرانے پر سزا دی ہی نہیں، ابھی جعلی دستاویز جمع کرانے کا تو ٹرائل ہونا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کے دلائل

اس کے بعد نیب کے دوسرے پراسیکیوٹر نیب جہانزیب بھروانہ نے دلائل شروع کر دی اور کہا ٹرسٹ ڈیڈز کہیں بھی رجسٹر نہیں کروائی گئی تھیں، جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے سوالنامہ دیا تھا، ایک ایم ایل اے کے جواب میں پتہ چلا بینیفشل مالک مریم نواز ہیں۔

جہانزیب بھروانہ نے مزید کہا کہ ہم نے دلائل کے آغاز میں ہی کمپنیوں کا ایک چارٹ پیش کیا تھا، اس چارٹ کے مطابق ایک کمپنی کے چئیرمین میاں نواز شریف ہیں اوراس کمپنی کا نام کیپٹل ایف زیڈ ای ہے، یہ کمپنی نیلسن ، نیسکول اور کومبر سے ڈیل کرتی تھی۔

بھروانہ نے کہا کہ نیلسن، نیسکول اورکومبر کا ذکر ٹرسٹ ڈیڈز میں موجود ہے، ٹرسٹ ڈیڈز میں فلیٹس کے نمبر بھی دیئے گئے ہیں، یہ لنک بنتا ہے نواز شریف کا لندن فلیٹس کے ساتھ۔ بھروانہ کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔  

دوران سماعت کمرہ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا رہا جب کہ باہر بھی لوگ بڑی تعداد میں موجود رہے۔  سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، ابصار عالم کمرہ میں جگہ نہ ملنے پر دروازہ کے باہرکھڑے رہے۔

گزشتہ سماعت میں کیا ہوا؟

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر کل تک دلائل مکمل نہیں کیے گئے تو تحریری دلائل پر ہی فیصلہ سنا دیں گے۔ گزشتہ سماعت کے آغاز پر نیب پراسیکیوٹر کے بینچ اور نواز شریف کے درمیان تعلقات سے متعلق بیان پر فاضل ججز نے ریمارکس دیے کہ سماعت سے قبل فریقین سے پوچھا تھا کہ انہیں بینچ پر اعتماد ہے کہ نہیں، عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کے اعتراضات مسترد کردیے۔

ہم نیوز کے مطابق قومی احتساب بیورو کے اسپیشل پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے دوران سماعت عدالت عالیہ کو بتایا کہ اپیلوں کی سماعت میں مکمل کیس پر دلائل دیں گے، ان کا مؤقف تھا کہ جب دونوں فریقین کے دلائل سامنے آئیں گے تو سارا کیس عدالت کے سامنے آ جائے گا۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ نے دوران سماعت استفسار کیا تھا کہ فلیٹس کی جو ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی کیا وہ وہاں رجسٹر کرائی گئی؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیلبری فونٹ والی ٹرسٹ ڈیڈ برطانیہ میں رجسٹر نہیں کرائی گئی، مریم نواز نے خود سے بوجھ اتارنے کے لیے یہ ٹرسٹ ڈیڈ بنوا کے بھائی کو بینیفشل اونر قرار دیا۔

‘ کیا مفروضے پر کرمنل سزا کو برقرار رکھیں؟’

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حسن اور حسین نواز بھی تو نواز شریف کے بچے ہیں، اگر نواز شریف مالک ہے تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہم مفروضے پر کرمنل سزا کو برقرار رکھیں، جس طرح سے ٹرائل کورٹ نے مفروضے پر مبنی فیصلہ دیا، کیا نواز شریف مریم نواز کا شراکت دار ہے؟ اکرم قریشی نے کہا کہ نہیں نیب کا کیس یہ نہیں ہے۔

بنچ کے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ مریم نواز کو سیکشن 9 -اے (5) کے تحت سزا کیوں ہوئی؟ یا تو نیب کا کیس ہوتا کہ نواز شریف اور مریم نواز دونوں مالک ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو ایک وقت میں ملکیت کی سزا کیسے ہو سکتی ہے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر 9 -اے (5) کے تحت دو لوگوں کو سزا نہیں ہو سکتی تو آدھی سزا تو وہیں ختم ہو جاتی ہے، نیب کے وکیل اکرم قریشی نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز فلیٹس کی بینفشل اونر ہیں لیکن وہ ذرائع نہیں بتا سکیں۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

احتساب عدالت نے سات جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو 10 سال قید بامشقت اور ایک سال اضافی قید کی سزا سنائی تھی۔ مریم نواز کو آٹھ اور ایک سال اضافی قید کی سزا جب کہ کیپٹن صفدر کو اعانت جرم میں ایک سال قید اورجرمانوں کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ نوازشریف نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے اور وہ آمدن سے زائد اثاثوں کے ذرائع بتانےمیں ناکام رہے۔ نواز شریف اور دیگر کو آمدن سے زائد اثاثے اور بے نامی جائیدادیں بنانے پر سزا سنائی گئی۔

نیب ریفرنسز اور پانامہ کیس

سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کے اپنے 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں نیب کو حکم دیا تھا کہ نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف چھ ہفتے کے اندر ریفرنس دائر کیا جائے۔ عدالت نے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ 


متعلقہ خبریں