حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کا عرق گلاب سے غسل


لاہور: حضرت سید علی بن عثمان ہجویریؒ المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار مبارک کو عرق گلاب سے غسل دے دیا گیا۔ غسل دینے کی تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار تھے۔

وزیراعلیٰ نے عرق گلاب سے مزار شریف کو غسل دینے کے بعد پھولوں کی چارد چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر دیگر وزرا اوراعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

غسل دینے کے موقع پر ملک کی ترقی، استحکام، خوشحالی اور امن کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔

صوبائی حکومت نے اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے ہیں اوراندرون و بیرون ملک سے آنے والے زائرین کی سہولت کے لیے بھی خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی ولادت باسعادت افغانستان کے معروف شہر غزنی میں 400ھ کو ہوئی۔ آپؒ کا اسم شریف علی، کنیت،ابُوالحسن اور لقب داتا گنج بخشؒ ہے۔

شہرغزنی کے محلہ جلاب میں آپؒ کے ددھیال کا گھر تھا جب کہ آپؒ کے ننھیال کا گھر محلہ ہجویرمیں تھا۔ اسی نسبت سے آپؒ ہجویری اور جلابی کہلاتے تھے۔

آپؒ کے والد حضرت سید عثمانؒ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ’تاج العلمائ‘ کے لقب سے مشہور تھے۔

آج بھی آپ کے ماموں حضرت تاج العلماء کا مزار اقدس غزنی، افغانستان میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

حضرت علی عثمان ہجویریؒ کی تعلیم و تربیت میں والدین اورماموں کا بہت عمل دخل تھا۔ ان کے علاوہ کسب فیض کے لیے آپؒ نے غزنی کے علاوہ تاشقند، سمر قند، بخارا، فرغانہ، ترکستان، خراسان، توس، نیشا پور، مہنہ، قہستان، مرو، سرخس، فارس، کرمان، بیت المقدس، شام و عراق، آذر بائیجان، طبرستان، خورستان، سوس، ہندوستان اور دیگر متعدد ممالک و علاقوں کے سفر کیے اور اپنے وقت کے جید علمائے کرام و صوفیا کی محافل میں شریک ہوئے۔

فارسی میں تحریر کردہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’کشف المحجوب‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ صرف خراسان میں 300 علمائے کرام سے ملاقاتیں کیں۔

آپؒ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپؒ کو یدطولیٰ حاصل تھا آپؒ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے مقلد تھے۔

آپؒ کی نگاہِ فیض کا اظہارحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی فرمایا ۔ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ غریب نوازؒ لاہور تشریف لائے تو حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِشریف پہ حاضری دینے کے بعد 40 دن کا چلہ بھی کاٹا۔

چلہ کشی کے دوران وہ عبادت و ریاضت میں مصروف رہے۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ خواجہ غریب نوازؒ کی زبان مبارک پہ حضرت علی عثمان ہجویریؒ کے لیے یہ شعر جاری ہوا 

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا
نا قصاں را پیرِکامل کاملاںرارہنما

مردِ خدا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ شعر اِس قدر زبان زد خاص وعام ہوا کہ کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔

مفکرپاکستان ڈاکٹرعلامہ سرمحمد اقبال نے آپؒ کے لیے فرمایا کہ

سید ہجویر مخدوم امم
مرقد اوپیر سنجر راحرم
بند ہائے کوہسار آساں کیسخت
در زمین ہند تخم سجدہ ریخت
عہد فاروق از جماش تازہ شد
حق زحرف او بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب
از نگاہش خانہ باطل خراب
خاک پنجاب ازدم او زندہ گشت
صبح از مہراوتا بندہ گشت
عاشق وہم قاصد طیار عشق
از جبینش آشکار اسرار عشق

حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے بھی آپ کے مزار اقدس پہ حاضری دی اور اکتساب فیض کیا۔ انہوں نے کہا کہ’’مزار اقدس سے انوار وتجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے پورا ہند مستفیض ہورہا ہے‘‘۔


متعلقہ خبریں