جعلی اکاؤنٹس کیس: 300 سے زائد افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف


اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے پہلی پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 33 نئے مشکوک اکاؤنٹس ملے ہیں جب کہ رقوم کی منتقلی میں 334 افراد سامنے آئے ہیں۔

پیر کے روز چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے معاملہ کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو حکم دیا ہے کہ عدالت عظمی کو آگاہ کیے بغیر کوئی حکم جاری نہ کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184 کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اسپیشل کورٹ کو حکم جاری کرنے سے روکتی ہے۔  

جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے بتایا کہ عدالتی احکامات کے بعد جے آئی ٹی فورا بنائی گئی، 29 مشکوک اکاؤنٹس کو دوبارہ دیکھا۔ 33 نئے مشکوک اکاونٹس بھی ملے ہیں جن پر تحقیقات جاری ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 334 افراد ایسے ہیں جو مختلف رقوم کی منتقلیوں میں ملوث ہیں۔

جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رہے۔ عدالت کے استفسار پر احسان صادق نے کہا کہ ابھی لانچ تک نہیں پہنچے۔ کمپینوں میں 47 کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چوروں کے پیسے کو جائز بنانے کے لئے کوشش کی گئی، یہ رقوم تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ عارف صاحب کدھر ہیں؟ احسان صادق نے عدالت کو بتایا عارف صاحب اومنی گروپ کے اکاؤننٹنٹ تھے وہ بیرون ملک ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملوث مفرورملزمان کی واپسی کے لئے انٹرپول سے رابطے کر رہے ہیں۔

جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ کی 16 شوگر ملیں ہیں، 210 مشکوک کمپنیاں ملی ہیں۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) اور اسٹیٹ بینک سے مدد لی ہے۔

احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے ٹھیکیدار بھی تھے، سرکاری ٹھیکیداروں کے نام بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیے تاہم تمام ٹرانزیکشنز کا جائزہ لینا مشکل کام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی کا خرچہ اومنی گروپ پر ڈالیں گے، پیسہ کوئی کھائے اور خرچہ سرکار کیوں کرے۔

احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ سینکڑوں منتقلیوں کی فہرست بڑا ٹاسک ہے اس میں ٹائم لگے گا۔   عدالت نے کیس کی مزید سماعت دس روز کے لیے ملتوی کردی۔

میڈیکل بورڈ  کی تشکیل کا کیس

عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پرملزمان انور مجید، عبدالعنی مجید اور حسین لوائی کے طبی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے حوالہ سے معاملہ کی سماعت بھی کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے صرف ملزمان کو ہسپتال میں لٹایا ہوا ہے۔

عدالت نے وزرات دفاع کو حکم دیا کہ وہ میڈیکل بورڈ سے متعلق رپورٹ دے۔

ہم نیوز کو دستیاب رپورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انور مجید مکمل صحت یاب ہیں، انور مجید کی 21 ستمبر کو انجیوگرافی ہوئی، جس میں انور مجید کی دل کی شریان نارمل آئی۔

رپورٹ کے مطابق انور مجید کی نقل و محدود ہونے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ چھاتی میں معمول کی تکلیف اور گھٹنے کا درد محدود حرکت کی وجہ ہیں۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انور مجید کا بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے ادویات جاری رکھی جائیں۔ واضح کیا گیا ہے کہ انور مجید شامل تفتیش ہونے کے لیے مکمل صحت یاب ہیں۔

عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سرجن جنرل آف آرمی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نئیر رضوی نے کہا کہ سرجن جنرل نے رپورٹ خفیہ رکھنے  کی استدعا کی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک دن تو رپورٹ منظر عام پر آنی ہی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے سفارشات بھی پیش کیں ہیں، بورڈ کے مطابق عبد الغنی مجید شامل تفتیش ہو سکتے ہیں۔ ملزم سرجری تک تحقیقات کے لیے صحت مند ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عبد الغنی نے جہاں سے سرجری کرانی ہے کروا لیں اور اگر سرجری نہیں کرانی تو جیل چلے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق انور مجید بھی صحت مند ہیں اور ان کا عارضہ قلب فی الحال سنجیدہ نہیں۔

رپورٹ پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ رہنا جیل میں ہے یا اسپتال میں؟ انور مجید کے وکیل  شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت رپورٹ کا جائزہ لینے کا وقت دے، عدالت رپورٹ کی کاپیاں دے اسے دیکھنے کے بعد وہ کچھ کہنے کے قابل ہوں گے۔

جیل منتقل کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون ملک عبدالغنی مجید کوعلاج کی اجازت نہیں ہوگی، عدالت نے حکم دیا کہ ملزم کو جیل شفٹ کیا جائے۔

صورتحال پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ سے ہسپتال میں موجیں کر رہے ہیں، عبدالغنی کے مرض کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ جب سرجری کرانی ہو گی تو عبدالغنی مجید کروا لیں اور سرجری کروا کے واپس جیل جانا ہو گا۔

 وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عبدالغنی مجید کی سرجری ایک دو روز میں ہونی ہے۔ عبدالغنی ساؤتھ سٹی ہسپتال سے سرجری کروانا چاہتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ساؤتھ سٹی ہسپتال سے سرجری کا وقت لیں۔

عدالت عظمی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آپریشن تک عبدالغنی مجید جیل میں رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عبدالغنی مجید سرکاری مہمان نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں