(ن) لیگ کے سیاسی رابطے تیز، ٹاسک بھی دے دیا

فوٹو: فائل


اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا توسابق وزیراعظم نواز شریف سے جاتی امرا میں سیاسی شخصیات کی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی دراز ہوگیا۔ اندرون خانہ موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حزب اختلاف کی تما م جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرکے عمران خان حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ’سیاسی‘ فیصلہ کرلیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق منگل کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف سے آفتاب احمد خان شیرپاؤ، پیر صاحب پگارا، تہمینہ دولتانہ، سینیٹر مشاہد حسین سید، چودھری شیرعلی اور رانا مشہود احمد خان سمیت 50 اہم سیاسی شخصیات نے ملاقات کی۔

جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات کے دوران سیاسی شخصیات نے نواز شریف سے بیگم کلثوم نواز کی وفات پر اظہار تعزیت کیا اورمرحومہ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا بھی کی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود احمد خان نے جاتی امرا میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں واضح ’اشارہ‘ دیا کہ ابھی ہم بیگم کلثوم نواز کے سوگ میں ہیں، اس کے بعد احتجاج کی طرف جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس کوشش میں ہے کہ عمران خان حکومت کے خلاف تمام سیاسی قوتوں کو یکجا کیا جائے اور ’مہنگائی‘ کا جو سلسلہ شروع  ہوا ہے اس سمیت حکومتی پالیسیوں پر آواز اٹھا کر عوام کو متحرک کرنے کی سعی کی جائے۔

پی ایم ایل (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے چہلم تک کسی قسم کی سیاسی سرگرمی شروع نہیں کی جائے گی البتہ اس دوران رابطے استوار کرکے حکمت عملی ترتیب دے دی جائے گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف کو بھی پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی جانب سے اسی لیے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بحیثیت قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپنے پاس رکھیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں چودھری نثارعلی خان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کے طور پر گیلانی حکومت کو بہت ٹف ٹائم دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے اسی ضمن میں دو دن قبل راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نیر حسین بخاری کی رہائش گاہ بھیجا گیا تھا جس نے نواز شریف کی جانب سے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے لیے خصوصی پیغام پہنچا کر دست تعاون مانگا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی گزشتہ روز نواز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جاتی امرا سے روانگی کے لیے انہوں نے دوسرا راستہ اپنایا تاکہ ان کا وہاں موجود میڈیا سے آمنا سامنا نہ ہو۔ 

سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے پی پی پی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یکجا کرنے کا ’ٹاسک‘ دیا گیا ہے۔

پی ایم ایل (ن) کی قیادت نے حالیہ صدارتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کو اپنی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ ماضی میں بھی نواز شریف اورآصف علی زرداری کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کردار ادا کرچکے ہیں۔

آصف علی زرداری نے فی الوقت حکومت مخالف کسی بھی تحریک کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی وجہ سے انتخابات میں بھی ان کی جانب سے کچھ زیادہ سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔

پی پی پی پنجاب کے صدر قمرالزماں کائرہ نے بھی دو دن قبل واضح کیا تھا کہ ان کی جماعت حکومت مخالف کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بھرپور طریقے سے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

سیاسی حلقے یقین رکھتے ہیں کہ آصف علی زرداری ابھی انتہائی خاموشی سے سیاسی پیشرفت کا جائزہ لے رہے ہیں مگر آنے والے دنوں میں وہ اہم سیاسی ’فیصلہ‘ کرسکتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اور انتہائی قریبی افراد سمیت پارٹی کے دیگر اہم رہنماؤں کو اس وقت مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔


متعلقہ خبریں