العزیزیہ ریفرنس،نواز شریف کے وکلاءکا تفتیشی افسر کے بیان پر اعتراض


اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت نمبر دو میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی سریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث معاون وکلاء نے کیس کو آگے بڑھایا۔

معاون وکیل محمد زبیر نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ تفتیشی افسر کے 15 اگست والے بیان پر اعتراض لکھوانا چاہتے ہیں جس پر عدالت نے اعتراض لکھوانے کی اجازت دے دی۔

معاون وکیل عائشہ حامد نے تفتیشی افسر کے گزشتہ سماعت پر قلمبند کیے گئے بیان پر اعتراض لکھوایا۔

عائشہ حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے مواد کو بھی قانون شہادت کے مطابق دیکھے گی۔ جے آئی ٹی کے مواد کو تفتیشی افسر اپنے شواہد کے طور پر پیش نہیں کر سکتے ہیں۔

مقدمے کے تفتیسی افسر محبوب عالم نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ دو نجی بینکوں کی مختلف برانچوں کے آپریشنل منیجرز نے پیش ہوکر ریکارڈ جمع کرایا اور ریکارڈ کے مطابق 277 اعشاریہ 856 ملین اور 52460 ڈالر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے مختلف افراد کو بھجوائے گئے جب کہ یہ رقم اس کے علاوہ تھی جو نوازشریف اور مریم نواز کو بھجوائی گئی تھی۔

تفتیشی افسر کے مطابق نیب راولپنڈی کے فنانس ایکسپرٹ شیر احمد خان نے نوازشریف کے اکاؤنٹس کی تجزیاتی رپورٹ تیار کی۔

محبوب عالم نے کہا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیمرا حسن مصطفیٰ نے حسین نواز کے انٹرویو کی ڈی وی ڈی فراہم کی ہے۔

خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈی وی ڈی قابل قبول شہادت نہیں ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ انٹرویو پبلک ہسٹری میں آتا ہے اور شہادت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ایک انٹرویو ہے اور کوئی پبلک ہسٹری نہیں ہے جب کہ ایک بار یہ یوٹیوب سے بھی انٹرویو اٹھا لائے تھے۔ اب کوئی متعلقہ بندہ ہی اس انٹرویو کو عدالت میں پیش کرسکتا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت چاہے تو ٹی وی چینل سے متعلقہ افراد کو سمن کرسکتی ہے اور عدالت انصاف کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔

نواز شریف نے عدالت میں اپنے وکلاء اور مسلم لیگی رہنماؤں سے بھی مشاورت کی۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد آج  پہلی باراحتساب عدالت  میں پیش ہوئے۔ عدالت نے نواز شریف کو ان کی درخواست پر تین دن کے لیے حاضری سے استثنی دیا تھا۔

نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے لیے لاہور سے خصوصی پرواز کے ذریعے  نور خان ائیر بیس پہنچے جہاں سے وہ جیمر، اسلام آباد پولیس اور ایلیٹ فورس کی گاڑیوں کے قافلہ میں احتساب عدالت پہنچے۔ میاں نواز شریف کی گاڑی پر نون لیگ کے کارکنان کی جناب سے گل پاشی بھی کی گئی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت میں استغاثہ کے اہم ترین گواہ اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر کئی دنوں پر محیط طویل جرح مکمل کی تھی۔

خواجہ حارث نے استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر 19 روز تک جرح کی۔ آج عدالت نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کے تفتیشی افسر محبوب عالم کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔

میڈیا کوریج روکنے کی ہدایات

نواز شریف کی احتساب عدالت آمد کے موقع پر میڈیا کو کوریج سے روکنے کے لئے پولیس کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں جس کے تحت پولیس نے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ 

میڈیا نمائندوں پر جوڈیشل کمپلیکس کی حدود میں موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پابندی کا اطلاق صرف میڈیا نمائندوں پر ہوگا، وکلا یا پولیس اہلکار اس پابندی سے مستثنی ہوں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل فون پر خود ساختہ پابندی کا مقصد نواز شریف کو میڈیا ٹاک سے دور رکھنا ہے۔ ایڈمنسٹریٹو جج شاہ رخ ارجمند نے احاطے میں موبائل فون لے جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔


متعلقہ خبریں