امل کیس: ٹراما سینٹر، ایمبولینس سروس لازمی قرار دینے کی تجویز


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں امل عمر قتل ازخود نوٹس کیس کے دوران عدالتی معاون نے مشورہ دیا کہ ٹراما سینٹر اور ایمبولینس سروس کو ہر سرکاری اور نجی اسپتال میں لازم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے امل قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ٹراما سینٹر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں لازمی ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ایم ڈی سی کا قانون ابھی تک حکومت نے منظور کیوں نہیں کیا؟ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آ ئندہ اجلاس میں بل پیش کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحت کے لیے انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے، میں ذاتی تجربہ بتاتا ہوں، میرے بھائی ڈاکٹر ہیں، انہوں نے  پیسے مانگے کہ اسپتال میں مشین ٹھیک کرانی ہے، ہم سب نے مل کر 25 لاکھ روپے اکٹھے کر کے مشین ٹھیک کرائی۔

عدالت عظمی کے سربراہ نے کہا کہ حکومت کی صحت پر توجہ نہیں ہے۔

مقتول بچی امل کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کی بنائی گئی کمیٹی سے مطمئن ہیں کیوں کہ کمیٹی میں ہر ادارے کا نمائندہ موجود ہے، اداروں میں بہتری کے لیے اصلاحات ہونی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتال عملہ کی جانب سے زیادتی ہوئی، اسپتال انتظامیہ نے ڈیڑھ ماہ بعد جھوٹا بیان دیا، انتظامیہ بار بار جھوٹ بول رہی ہے، اسپتالوں میں اس قسم کی غفلت ہوتی آ رہی ہیں۔ پولیس نے اپنی غفلت کا اعتراف کر لیا ہے۔ امل کی والدہ نے کہا کہ اسپتال انتظامیہ نے ساری ذمے داری ہم پر ڈال دی۔

دوران سماعت امل کے والد نے عدالت کو بتایا اسپتال انتظامیہ کے خلاف بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ امید ہے چیف جسٹس اسپتال کے خلاف سخت احکامات دیں گے۔

کمیٹی تشکیل دینے کیلیے سفارشات

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے سفارشات پیش کردی ہیں، نجی اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے حوالہ سے قوانین بنانے پر کام شروع ہو چکا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئی جی سندھ نے بھی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے تین ہفتوں کا وقت طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کمیٹی کے بارے میں بتائیں کس کو شامل کریں؟ عدالتی معاون نے کہا کہ کمیٹی میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج صاحب کو شامل کرنے کے بارے میں عدالت خود طے کرے۔  

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اسپتال نے بچی کو ابتدائی طبی امداد تک نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں نہ اسپتال کی غفلت پر تحقیق کرائیں؟

 متاثرہ خاندان کے وکیل فیصل صدیقی نےکہا کہ عدالت کے سامنے نجی اسپتال نے غلط بیانی کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مقدمہ درج کرا لیتے ہیں۔ نجی اسپتال کا مالک کہاں ہے؟ ہم کیوں نہ فوجداری تحقیقات کرائیں؟ اسپتال کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ کے مالک بیرون ملک ہیں۔

بچی کی والدہ نے کہا کہ اسپتال کا کہنا ہے والدین نے خود بچی کو گاڑی میں منتقل کیا۔ یہ دعویٰ غلط ہے، اسپتال عملہ  نے خود مجھ سے کہا کہ اپنی گاڑی میں لے جائیں۔ اسپتال انتظامیہ نے میری بچی کی موت کا وقت بھی غلط لکھا، اسپتال مکمل طور پر غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ اگر ہم اسٹاف اور سامان آپ کے ساتھ بھیج دیں تو ہماری ایمرجنسی کا کیا ہوگا؟

جسٹس ریٹائرڈ عارف خلجی کمیٹی سربراہ

متاثرہ خاندان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی جی سندھ کو کمیٹی میں شامل نہ کیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سابق جسٹس عارف خلجی کوکمیٹی سربراہ بناتے ہیں، کمیٹی میں پولیس کی طرف سے اے ڈی خواجہ کو بھی شامل کرتے ہیں۔

امل قتل کیس کی کمیٹی کے ٹی او آرز

ہم نیوز نے امل قتل کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کی تفصیلات حاصل کر لی ہے۔

ٹی او آرز کے مطابق کمیٹی کے قیام کا مقصد امل کی موت کیسے اور کیوں ہوئی؟ کا جواب تلاش کر نا ہے۔ کمیٹی ملزمان کی شناخت کر کے ان کی سزا تجویز کرے گی۔

کمیٹی ایمرجنسی میڈیکل ایڈ کے قانون میں اصلاحات کا بھی جائزہ لے گی۔ اس کے علاوہ پولیس، نجی اسپتال، ایمبولینس سروس مہیا کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی تجاویز بھی پیش کرے گی۔

کمیٹی امل عمر کے خاندان کو ریلیف فراہم کرنے سے متعلق بھی تجاویز دی گی۔

کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج، سینئر پولیس آفیسر سمیت سینئر ڈاکٹرز اور سیکرٹری ہیلتھ کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امل خاندان کی جانب سے اے ڈی خواجہ، ڈاکٹر سیمی جمالی، ڈاکٹر تسنیم احسن اور ڈاکٹر ٹیپو کے نام کمیٹی میں شامل کرنے کی تجویزدی گئی ہیں۔ امل خاندان کی جانب سے سیکرٹری ہیلتھ کو کمیٹی میں شامل کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔

کراچی میں پولیس مقابلہ کے دوران گولی لگنے سے زندگی سے محروم ہونے والی دس سالہ امل عمر کے کیس میں سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کے دوران کمیٹی قائم کی تھِی۔

قتل کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ترامیم اور نجی اسپتالوں میں علاج کی سہولیات کے متعلق رپورٹ بھی مرتب کرے گی۔

امل عمر معاملہ 

دس سالہ بچی امل کو 13 اگست کی شب کراچی میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئی تھی۔

اہل خانہ کے مطابق زخمی امل کو نیشنل میڈیکل سینٹر نامی اسپتال میں ڈاکٹرز نے معمولی دوا دینے کے بعد دوسرے اسپتال منتقل کر نے کا کہہ دیا  تھا۔ اس دوران اسپتال کی جانب سے بچی کے لیے کوئی ایمبولینس بھی مہیا نہیں کی گئی اور ان کی والدہ کو اپنی گاڑی میں دوسرے اسپتال منقل کر نے کا کہہ دیا گیا۔ امل عمر اسپتال جاتے ہوئے راستے میں انتقال کر گئی تھی۔


متعلقہ خبریں