آئی ایم ایف کو سی پیک کی تفصیل دی جائے گی؟ رضا ربانی


اسلام آباد: سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے استفسار کیا ہے کہ سعودی عرب کی سی پیک میں شراکت داری سے قبل کیا چین سے مشاورت کی گئی؟ اورکیا اتنا اہم فیصلہ کرنے سے قبل پارلیمنٹ سے رائے نہیں لینی چاہیے تھی؟ انہوں نے کہا کہ اخباری خبروں کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم کو سی پیک کی تفصیل دی جائے گی؟

سینیٹ اجلاس میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ جب وزیراعظم سعودی عرب سے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ سعودی عرب سی پیک میں شراکت دار ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ایشو پر نہ وزیراعظم اور نہ ہی فاضل وزیر نے کوئی بیان جاری کیا۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ابھی تک سی پیک کی تفصیلات ہمیں تو نہیں دی گئی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ نجکاری پالیسی کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل وزیر خزانہ نے متعدد بار کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن ابھی آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان میں موجود ہے۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم کسی خاص کام کے لیے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخباری خبروں کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم کو سی پیک کی تفصیل دی جائے گی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاری لائے اور کاروباری طبقے کو ڈرانا بند کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونی ممالک میں جاری سرماری کاری ملک میں لانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی اورملکی معیشیت کو درست کرنے کے لیے سرمایہ کار کو سہولیات دینا ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ منی بجٹ میں ٹیکسز امیر یا غریب پر نہیں بلکہ سب پر لگے ہیں۔ حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ٹیکسز دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکسز لگائے جارہے ہیں۔

سینیٹر طلحہ محمود نے زور دے کر کہا کہ اورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروباری لوگوں کی معاونت کرنا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کو سیاسی طور پر قتل کرنا بند کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت این ایف سی کا فوری اجراء کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کو لیگل بنانے کی بات کی جاتی ہے جب کہ خود اپنے آپ کو پال نہیں سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ میگا پروجیکٹس کے حوالے سے چھو ٹے صوبوں سے پوچھنا پڑے گا۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ حکومتی بجٹ کو انصاف بھرا بجٹ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کا استحکام نہ بتائیں، سرائیکی صوبے کی بات کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ یہ وہاں کے عوام کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اپنے صوبوں کی بات کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جن ڈیمز کو تین اسمبلیاں رد کرچکی ہیں ان کو بھی اچھالا جارہا ہے۔

سینیٹر سسی پلیجو کا کہنا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ایک بڑا سوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لئے قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں اور دیتی رہے گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا اورنادرا کے شناختی کارڈ کی فیس بھی بڑھادی۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے چار اورگوادر کے 12 منصوبوں پر کام کرنےکے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن اس حکومت نے دعوے بہت کیے ہیں مگر یار رکھیں کہ ابہام سے حکومت نہیں چلتی ہیں۔

نواز شریف حکومت کی تعریف کرتے ہوئے نزہت صادق کا کہنا تھا کہ میاں صاحب کی پالیسیاں بہتر تھیں اسی لیے ملک کے حالات بہتر ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ (ن) لیگ نے جامعات بنائیں، سڑکوں کا جال بچھایا، کسانوں کے لیے مواصلات کے نظام کو بہتر بنایا اورسی پیک و بھاشا ڈیم پر بہت کام کیا۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ خبر چھپی ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو ریکو ڈیک دیا جا رہا ہے اور گوادر میں آئل سٹی بنانے کی بھی سعودی عرب کو اجازت دی جارہی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگرایسا ہے تو یہ بتایا جائے کہ اٹھارویں ترمیم کہاں چلی گئی؟

سابق وفاقی وزیر کا سوال تھا کہ سعودی عرب میں کون سے ایسی ایکسپرٹیز ہیں جو ہم خود نہیں کر سکتے؟ حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا بلوچستان حکومت وجود نہیں رکھتی ہے؟

حاصل بزنجو نے وفاقی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا صوبے کے عوام  مر چکے ہیں جو مرکزی حکومت صوبے کی معدنیات کی سودے بازی کر رہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت صوبہ بلوچستان کو کیوں ایک نئے تنازعے میں ڈال رہی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا سرمایہ ایرانی سرحد پر لے جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغان تنازعے سے ابھی نکل نہیں سکے ہیں کہ ہمیں ایک اور تنازعے میں ڈالا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اورایران ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

میر حاصل بزنجو نے مطالبہ کیا کہ حکومت تمام معاہدات کی تفصیلات سامنے لائے اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر اس
معاملے پر واضح جواب  نہ دیا گیا تو نیشنل پارٹی کے پارلیمنٹرینز ہر روز ایک  گھنٹہ پارلیمینٹ کے باہر احتجاج کریں گے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیرسینیٹرپروفیسر ساجد میرنے کہا کہ جو اقدامات بجٹ میں تجویز کیے گئے وہ فنانس ڈویژن کا کوئی بابو بھی بنا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں 178 ارب کے اضافی ٹیکز لگائے گئے اور پی ایس ڈی میں کٹوتی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عوام کو دیے جانے والے فائدے اس بجٹ میں ختم کردیے گئے جس کے براہ راست اثرات غریب پر پڑرہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر 15 فیصد ٹیکس تھا جواب 25 فیصد ہوگیا ہے۔

سینیٹرپروفیسر ساجد میر نے تجویز پیش کی کہ جب تک 500 ارب کے حکومتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی اس وقت تک کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

انہوں نے ان خدشات کا اظہارکیا کہ پیش کردہ حکومتی بجٹ سے بیروزگاری بڑھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ٹیکس نادہندہ کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا لیکن اب چھوٹ دی جا رہی ہے۔

سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا دعویٰ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ٹیکس ریکوری بڑھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ادارے اربوں روپے کا بجٹ کھارہے ہیں۔

سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر سفید ہاتھی بنے اداروں سے متعلق فیصلے کرنا ہوں گے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بجٹ پربحث کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر برائے خزانہ کو ایوان میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے حکومت کے معاشی وژن کا اندازہ ہوتاہے.

انہوں نے کہا کہ حکومت کا معاشی وژن افسوسناک ہے حالانکہ حکومت میں آنے سے قبل بڑی امیدیں دی گئیں لیکن ہائرایجوکیشن کے فنڈ میں چھ ارب کی کٹوتی کی گئی۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کچھ دن پہلے ہیلتھ کارڈ کی بات ہوئی لیکن صحت کے فنڈ میں 14 ارب روپے  اور گلگت بلتستان وآزاد کشمیر کی منسٹری میں ایک ارب 40کروڑ کی کمی کردی گئی.

ان کا کہنا تھا کہ وزرات داخلہ کے فنڈ میں گیارہ ارب 32 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی، این ایچ اے میں 25 ملین کی کٹوتی ہوئی اور بجلی کی ترسیل کمپنیوں کے فند میں بھی کٹ لگادیا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھرنے کہا کہ پی پی پی حکومت کی پالیسی عوام کو خودمختار کرنے کی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ہم نے سنا تھا کہ بجٹ کے بعد منی بجٹ آتا ہے مگر یہ میگا بجٹ تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بجٹ کے بعد کمپنیاں لوگوں کونکال رہی ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ عوام سوچ رہی تھی کہ تحریک انصاف کے آنے سے انہیں ریلیف ملےگا اورغربت ختم ہوگی۔

سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ انتخابی نعرے حکومت میں آکر کیسے بدل جاتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت بتائے کہ اس نے کسانوں کے لیے کیا کیا؟

سینیٹر رحمان ملک نے تجویز دی کہ حکومت اٹھارویں ترمیم کو نہ چھیڑے اور ریلوے کے کرائے کم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی۔

یختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر سرداراعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے دعوؤں کے خلاف جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ 34 ویں نمبر پر آنے والے کو سیکریٹری لگایا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے دعویٰ کیا کہ گریڈ 22 کے افسران کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بٹوا چرانے والے افسر کا ڈوپ ٹیسٹ ہونا چاہیے کیونکہ جس نے چوری کی وہ افسر نشے میں لگتا ہے۔

سینیٹ میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ نے فواد چودھری کے بولنے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کا بولنا بند کروائیں اوران سے معافی منگوائیں۔

انہوں نے دھمکی دی کہ بصورت دیگر بائیکاٹ کریں گے کیونکہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔

چیئرمین نے اس پر مؤقف اپنایا کہ اس معاملے پر دیکھنا ہوگا کیونکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔


متعلقہ خبریں