العزیزیہ ریفرنس: عدالت نےنوازشریف کو جانے کی اجازت دے دی

العزیزیہ ریفرنس: میڈیا کو نواز شریف سے گفتگو سے روک دیا

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت نمبر دو میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ پولیس نے عدالت میں موجود میڈیا نمائندوں کو نواز شریف سے گفتگو کرنے سے روک دیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں موجود ہیں جب کہ اُن کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ اور تفتیشی افسر محبوب عالم کے بیان پر جرح کر رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محبوب عالم سے پوچھا کہ آپ نے جے آئی ٹی کی مصدقہ کاپیز کیلئے کب اپلائی کیا تھا؟

محبوب عالم نے بتایا کہ میں نے خود اپلائی نہیں کیا تھا۔ حواجہ حارث کے سوال پر کہ کس نے مصدقہ کاپی کیلئے اپلائی کیا تھا، تفتیشی افسر نے کہا ہم نے پراسیکیوشن ڈویژن نیب ہیڈ کوارٹر میں درخواست دی تھی۔

خواجہ حارث نے پوچھا کہ کس نے سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی کی مصدقہ کاپی حاصل کی؟ تو تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ان کی ایماء پر کاپی وصول کی گئی تھی۔

خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا کوئی اتھارٹی لیٹر یاسر نواز کو دیا تھا؟ اس پر گواہ نے کہا کہ ایسا کوئی اتھارٹی لیٹر یاسر نواز کو نہیں دیا تھا میں نے پراسیکیوشن ڈویژن کو تحریری درخواست دی تھی، یاسر نواز نے جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کی اس کا بیان فراہم نہیں کیا۔

وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تصدیق کو قانون شہادت پر پرکھا تھا؟ کیا رپورٹ کی تصدیق کرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا ؟ اس پر نیب پراسیکوٹر نے مداخلت کی اور کہا کہ یہ سوال تفتیشی افسر سے نہیں پوچھا جا سکتا۔ کیا ہم سپریم کورٹ سے جاکر پوچھیں گے کہ کس نےتصدیق کی؟

خواجہ حارث نے کہا کہ سوال تو ہم ان سے پوچھیں گے انہوں نے ہمارے خلاف شواہد پیش کئے ہیں۔ تفتیشی افسر نے نیب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط کی کاپی عدالت میں پیش کردی۔

خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا اس خط میں جے آئی ٹی رپورٹ کا ذکر ہے؟ محبوب عالم نے جواب دیا کہ ہم نے متعلقہ مواد کا لکھا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا خصوصی طور پر ذکر نہیں کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے الگ سے کوئی درخواست نہیں دی، میں نے تمام ریکارڈ کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کے لیے ایک ہی خط لکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کہیں بھی تصدیق شدہ نقول نہیں لکھا، رپورٹ وصول کرتے وقت یہ نوٹس میں آیا کہ رپورٹ کی کسی کاپی پر نہیں لکھا تھا کہ کب مانگی گئی اور کب جاری ہوئی، جے آئی ٹی رپورٹ کی تصدیق کرنے والے شخص کا نام اور تاریخ درج نہیں تھا۔

دوران جرح تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے متفرق درخواستوں کی مصدقہ نقول حاصل کر کے متن کی تصدیق کے لیے کسی ملزم کو طلب نہیں کیا، متفرق درخواست تصدیق شدہ ہے لیکن اس کے ساتھ لگا ریکارڈ تصدیق شدہ نہیں۔

نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے محبوب عالم سے کہا کہ جو بات بھی بتانی ہے جج صاحب کو بتائیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت دی کہ وہ پہلے سوال ہونے دیں پھر جواب دیں۔

حواجہ حارث کے سوال پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ متفرق درخواستوں کے ساتھ منسلک دستاویزات سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ نہیں، متفرق درخواست کے ساتھ منسلک ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ سپریم کورٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ متفرق درخواستوں کا انڈیکس سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ نہیں۔ عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر کے نواز شریف کو عدالت سے جانے کی اجازت دے دی۔

گزشتہ سماعت کا احوال

گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران  خواجہ حارث نے تفتیشی افسر سے جرح کے دوران سوال کیا تھا کہ کیا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایسا کوئی جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی ریکارڈ دستیاب ہی نہیں؟

استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نیب ہیڈ کوارٹر اور ایف آئی اے نے متعلقہ ریکارڈ کی دستیابی یا عدم دستیابی سے متعلق کوئی جواب ہی نہیں دیا، تفتیشی افسر نے بتایا کہ جواب نہ ملنے کے باوجود دونوں اداروں کو یاد دہانی کے خطوط بھی نہیں بھجوائے گئے۔

نوازشریف کے وکیل نے استغاثہ کے گواہ سے کہا کہ آپ رپورٹ دیکھ کر بتائیں۔ تفتیشی افسر محبوب عالم نے جواب دیا کہ میری انوسٹیگیشن رپورٹ میں صفحہ آٹھ کے پیراگراف چھ پر یہ بات لکھی ہوئی ہے، اس کے باوجود مجھے یاد نہیں کہ ایف آئی اے اور نیب ہیڈ کوارٹر نے ایسا کوئی جواب دیا تھا، میں نے انویسٹی گیشن رپورٹ کا متعلقہ پیراگراف حقائق کی تصدیق کے بعد ہی تحریر کیا تھا۔

سیکیورٹی اہلکارنے  صحافیوں کونواز شریف سے بات کرنے سے روک دیا

سیکیورٹی اہلکاروں نے کمرہ عدالت میں نوازشریف کی صحافیوں سے گفتگو پر پابندی لگا دی۔ صحافیوں کی نواز شریف سے گفتگو کی کوشش پر سیکیورٹی اہلکارنے انہیں روک کر کہا کہ ایس پی صاحب کا حکم ہے کہ نوازشریف سے صحافیوں کو بات نہ کرنے دی جائے۔

اہلکار نے کہا کہ صرف سلام دعا کرنا چاہیں تو اجازت ہے ،سوال جواب نہیں کر سکتے۔

عدالت میں موجود سیکیورٹی اہلکار نے کہا اگر نواز شریف خود بات کرنے کے لیے آپ کو بلائیں تو ہم نہیں روکیں گے، فی الحال آپ ان سے دور دوسری سائیڈ پر کھڑے رہیں۔ جس پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے موقف اختیار کیا کہ اس عدالت کو جج صاحب ریگولیٹ کرتے ہیں یا ایس پی؟ نواز شریف اب اڈیالہ جیل کے قیدی اور یہاں پولیس تحویل میں نہیں بلکہ سزا معطلی کے بعد ضمانت پر ہیں۔ اس پر اہلکار نے کہا میرا کام آپ کو ایس پی صاحب کے آرڈرز سے مطلع کرنا تھا۔


متعلقہ خبریں