آئی ایم ایف کا شرح سود گیارہ فیصد کرنے کا مطالبہ


اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے شرح سود گیارہ  فیصد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق عالمی ادارے کی جانب سے یہ مطالبہ پاکستانی حکومت سے ہونے والے حالیہ مذاکرات میں کیاگیا۔

واشنگٹن میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر کی سربراہی میں پاکستان آنے والے  وفد کے وزارت خزانہ سے مذاکرات جاری ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو موجودہ شرح سود 8.5 فیصد کو نا کافی قرار دیتے ہوئے اسے گیارہ فیصد تک لے جانے کی سفارش کی ہے اور اس وقت دونوں فریقوں کے مابین یہی نقطہ اختلاف کا باعث ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق اگر شرح سود کو بڑھایا جاتا ہے تو معیشت پر بالعموم اور معاشی ترقی پر بالخصوص منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے یہ تجویز درحقیقت افراط زر میں اضافے کے پیش نظررکھی گئی ہے جو روپے کی قدر گرنے اور تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باعث  ہو گا۔

اس سلسلے میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر وقار احمد کا  کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو شرح سود میں 50 بیسس پوائینٹس اضافے کی تجویز دی ہے لیکن آئی ایم ایف نے 100 بیسس پوائینٹس بڑھانے کا مشورہ دیا ہے جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ تجویز کسی بھی صورت پاکستان کے لیےموافق نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ تسلیم کرتا ہے توصنعتی ترقی کے حوالے سے حکومتی منصوبے بری طرح  متاثر ہوں گے کیونکہ  اتنے زیادہ شرح سود پر پرائیوٹ سیکٹر قرضے نہیں لے گا اور اس وجہ سے صنعتی ترقی پر گہرا اثر پڑے گا جسے برادشت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر وقار نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے ایسے ترقیاتی منصوبے جن کے لیے خام مال بیرون ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے نا صرف متاثر ہوں گے بلکہ ان کو مکمل کرنے پر خطیر اخراجات بھی آئیں گے جنہیں حکومت کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان منصوبوں میں ریل روڈ اور دوسرے انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔

اسی حوالے سے سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو مسلسل متنبہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بربادی کے مترادف ہے اور وہ  وزیراعظم عمران خان کو بھی اس بات سے متعدد بار آگاہ کر چکے ہیں کہ انھیں غلط مشورے دیئے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک فیصد شرح سود میں اضافے سے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے  0.5 فیصد تک بڑھ جاتا ہے اور اگر اس میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا جائے تو یہ خسارہ 5.7 فیصد تک چلا جائے گا جبکہ  آئی ایم ایف تجویز کے مطابق یہ خسارہ جی ڈی پی کے تقریبا 7.5 سے 8.5 فیصد تک چلا جائے گا۔


متعلقہ خبریں