بینظیر قتل کیس: ملزمان کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد



اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بے نظیر قتل کیس کے ملزمان کی ضمانت منسوخی کے لیے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے ضمانتیں برقرار رکھی ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے جمعہ کے روز بے نظیر قتل میں نامزد ملزمان کی ضمانت منسوخی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ عدالت عظمی نے درخواست گزار اور ملزمان کے دلائل سننے کے بعد پولیس افسران کی ضمانت کو برقرار رکھا۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری، پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر و دیگر کے ہمراہ عدالت عظمی پہنچے تھے۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس میں نامزد پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو لاہور ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا جس کے خلاف رشیدہ بی بی نے درخواست دائر کی تھی۔

جمعہ کو سماعت کے دوران بری کیے گئے پولیس افسران کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار رشیدہ بی بی انتقال کر چکی ہیں جس کی وجہ سے درخواستیں غیر موثر ہو گئی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ بیوہ کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے، گزشتہ سماعت پر رشیدہ بی بی کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔

عدالت عظمی نے پولیس افسران کی جانب سے بریت کے خلاف درخواست غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

پولیس افسران کے ملوث ہونے کے شواہد؟

لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل کے دوران عدالت عظمی کو بتایا کہ پولیس افسران قتل کی سازش میں ملوث تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ پولیس افسران کے ملوث ہونے کے کیا شواہد ہیں جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ افسران نے قتل کے شواہد ضائع کیے۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کر چکی ہیں۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں بھی ہائی کورٹ میں زیر التواء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی سزا کے خلاف ضمانت نہیں ہو سکتی جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے آئینی اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزموں کی ضمانتیں منسوخ کرنے کےخلاف درخواست مسترد کر دی۔ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ بی بی سی نے بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات پولیس سے زیادہ اچھی کی ہیں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ میں اپیل بھی ٹرائل کا تسلسل ہوتی ہے، کیا دہشت گردوں کو شک کا فائدہ دینا درست ہے؟ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت فیصلہ کے وقت سب کچھ مدنظر رکھتی ہے، شواہد نہ ہوں تو ہائی کورٹ ضمانت دے سکتی ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ ہائی کورٹ کو ضمانت کا آئینی اختیار نہیں۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بی بی قتل کیس میں شواہد ہیں یا نہیں، فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا، سیکیورٹی کی فراہمی میں کوتاہی فوجداری جرم کیسے ہوگیا؟

درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ ملزموں کی ضمانت منسوخ کر کے اپیل پر سماعت کا حکم دیا جائے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملزموں کی ضمانت کو ایک سال گزر گیا ہے، کیا ملزموں نے ضمانت کا غلط استعمال کیا ہے؟ ضمانت غلط استعمال پر ہی منسوخ ہوتی ہے، ضمانت منسوخی کا قانون اور اصول بالکل واضح ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ حیرت ہوئی اتنا بڑا واقع ہوا اور شواہد ضائع ہو گئے، جائے وقوعہ دھلنے سے شکوک پیدا ہوئے۔ عدالت نے شکوک و شبات نہیں دیکھنے شواہد دیکھنے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے دلائل کے دوران کہا کہ ملزم کو عدالت کی ڈارلنگ قرار دینا ختم ہونا چاہیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا بی بی کی شہادت پر افسردہ اور حیران ہے، کیا ملزمان کو سزا انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہونی چاہیے؟ لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ دہشت گردی کے کیس میں سزا ہونا ضمانت منسوخی کیلیے کافی ہے، پیپلز پارٹی کے کہنے پر تو پرچہ بھی نہیں ہو رہا تھا، بے نظیر بھٹو پر کراچی اور پشاور میں بھی حملے ہوئے، بی بی کے قتل کا نقصان پوری دنیا کو ہوا۔

سیاست اور قانون میں فرق رکھیں

گزشتہ عدالتی کارروائی کے متعلق دلائل دیتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اتنے ہائی پروفائل کیس کو غیر سنجیدہ لیا، ہائی کورٹ نے میرٹ پر سنے بغیر ضمانت دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سیاست اور قانون میں فرق رکھیں، بار بار کہہ رہا ہوں عدالت کو شواہد دکھائیں، انہیں دیکھ کر ہی ضمانت منسوخی کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ شواہد کے علاوہ ہائی کورٹ کے غیر آئینی فیصلہ کو بھی دیکھا جائے، انسان جھوٹ بول سکتا ہے، حالات اور واقعات نہیں، پولیس افسران پہلے دن سے سازش کا حصہ تھے، پرویز مشرف کیس میں مفرور ملزم ہے، مشرف کے حکم پر بی بی کو قتل کیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ مشرف کے ملوث ہونے کے شواہد کہاں ہیں؟ عدالت نے قانون کے مطابق چلنا ہے، جائے شہادت کو دھلتا دیکھ کر خود بھی حیران ہوا تھا۔

سپریم کورٹ سے پرانا رشتہ ہے

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میرے خاندان اور پی پی کا سپریم کورٹ سے پرانا رشتہ ہے، ہم تین نسلوں سے یہاں آرہے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ خود اس مقدمہ میں فریق بن کر فالو اپ رکھوں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ریفرنس سابق چیف جسٹس کو بھی بھیجا تھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ڈی این اے میچز کو نظر انداز کیا گیا۔ مشرف کے لیے کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اس دن سکیورٹی گارڈز کو بھیج دیا گیا اور بی بی کو وہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کرائم سین کو دھو دیا گیا جس پر پارٹی کی جانب سے بھی اعتراض اٹھایا گیا۔ جب مشرف پر حملے ہوئے تو کرائم سین کو سنبھال کر رکھا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پولیس والوں کو ضمانت بھی دی گئی اور ڈیوٹی پر بھی گئے۔ جسٹس کھوسہ قابل احترام جج ہیں اور ہمیں یقین ہے بی بی اور ذوالفقار علی بھٹو کیس میں ہمیں انصاف ملے گا۔

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 31 اگست 2017 کو سنائے گئے فیصلہ میں بے نظیر قتل کیس میں نامزد پانچ ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔


متعلقہ خبریں