فالٹ لائن پر قائم شہروں میں دوبارہ زلزلہ آسکتا ہے، ماہرین



اسلام آباد: 13 برس قبل کشمیر اور خیبرپختونخوا کو قیامت خیز زلزلے نے بری طرح تباہ کردیا جبکہ قیامت خیز زلزلے میں  87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق جب کہ زخمیوں کی درست  تعداد آج تک معلوم نہ ہوسکی۔

یہ بات ہم نیوز کے پروگرام ’ہم انوسٹی گیٹس ‘ کے پروگرام میں بتائی گئی جو خصوصی طورپر زلزلہ اور اس کی تباہ کاریوں پر تیار کیا گیا تھا۔ پروگرام میں کہا گیا کہ سات اعشاریہ چھ شدت سے آنے والے زلزلے نے مظفرآباد کو ایک لمحے میں تباہ کردیا اور پورے ملک سے شہر کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

اس ہلاکت خیز زلزلےنے صرف متاثرہ علاقوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کوبھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ماہرین کے حوالے سے پروگرام میں بتایا گیا کہ فالٹ لائن پر قائم شہروں پر کبھی بھی دوبارہ زلزلہ آسکتا ہے جب کہ 2005  سے قبل بھی زلزلے کی پیشن گوئی کر دی گئی تھی۔

زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں  کے لواحقین اور متاثرین کا کہنا ہے کہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن ہونے والی تباہی ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بڑی تھی۔

زاہد امین چئیرمین برائے کمیشن معائنہ عمل درآمد آزاد کشمیر نے ’ ہم انوسٹی گیٹس‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ زلزلہ بہت شدید اور ایک بدترین آفت تھا لیکن جس طرح پوری قوم مدد کو آئی، ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے غلط فیصلے کیے جبکہ ہمارے پاس بہت پیسہ تھا مگر منصوبہ بندی غلط کی گئی۔

زلزلے میں ایک خاندان کی واحد بچ جانے والی بچی کا کہنا تھا کہ قیامت کا منظر تھا، وہ اس وقت بہت چھوٹی تھی لیکن اب اسے اس کے گھر والے بہت یاد آتے ہیں۔

مانسہرہ، بالا کوٹ کے شہریوں کا کہنا تھا کہ بالاکوٹ تو صحفہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جب بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں تو دل کانپ جاتا  ہے۔

متاثرہ علاقے کے سماجی کارکن نے  بتایا کہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا کیونکہ لوگوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

2008 سے قبل بحالی کا کام بھر پور طریقے سے ہوا لیکن 2008 کے بعد یہ کام ماند پڑنے لگا کیونکہ یہ کام بھی سیاست کی نذر ہوگیا جب کہ سیوریج پر چار ارب سے زائد روپے ضائع ہوئے۔

’ایرا‘ نے بتایا کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے کیونکہ حکومت آسانی سے فنڈز فراہم نہیں کرتی۔

مقامی افراد اور سماجی کارکن کا کہنا ہے ابھی تک سڑکیں تک نہیں بنائی گئی ہیں جب کہ 700 سے زائد تعلیمی ادارے بھی دوبارہ نہیں بنائے جاسکے ہیں۔

زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے ’ایرا‘ کے مطابق 70 فیصد منصوبے مکمل کیے گئے، 20 فیصد پر کام جاری ہے جب کہ 10 فیصد پر کام شروع ہی نہیں ہوسکا۔

مقامی افراد کے مطابق نیو بالا کوٹ سٹی منصوبے پرعملدآمد نہ ہوسکا جب کہ 18 ارب روپے کی لاگت سے  بنایا جانے والا نیو مظفر آباد سٹی کا منصوبہ بھی متنازعہ ہوگیا۔

ہم انوسٹی گیٹس کے مطابق ایک رپورٹ کے تحت نواز شریف حکومت نے 88 ارب روپے کی خطیر رقم متاثرہ علاقوں کے بجائے پاکستان میں خرچ کردی۔


متعلقہ خبریں