تو ہین رسالت کی مجرم آسیہ بی بی کی اپیل پر فیصلہ محفوظ


اسلام آباد: توہین رسالت کی مجرم آسیہ بی بی کی سزائے موت برقرار رکھنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ کسی ٹی وی چینل پر اس کیس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی جائے گی۔

اپیل کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کی ۔ بینچ کے دوسرے ممبران میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل ہیں۔

اس سے قبل اپنے دلائَل کے آغاز میں آسیہ بی بی کے وکیل نےکہا کہ آسیہ بی بی کو ٹرائل کورٹ نے سزائے موت دی تھی،  وقوعہ کے وقت ایف ائی آر درج نہیں کی گی اور واقعہ کے پانچ دن بعد مقدمہ درج کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف ائی آر میں کہا گیا ہے کہ آسیہ بی بی عیسائی مذہب کی مبلغہ ہے، کیا ریکارڈ سے آسیہ بی بی کا مبلغہ ہونا ثابت ہوا؟ وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی کو مبلغہ ثابت کرنے کے کوشش کی گی۔ انکا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کے مبلغہ ہونے کے کوئی شواہد نہیں۔

بینچ کے رکن جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ تاخیر سے ایف ائی ار درج ہونے کی وجہ  کیا ہے؟  وکیل آسیہ بی بی نے جواب دیا کہ مخالف فریق کا موقف ہے وہ پانچ دن خود تفتیش کرتا رہا۔ وکیل نے کہا کہ شکایت کنندگان نے دعویٰ کیا کہ آسیہ بی بی نے اقبال جرم کیا، آسیہ بی بی کو عوامی اجتماع میں بلا کر اقبال جرم کروایا گیا۔ وکیل نے کہا کہ خواتین کی شکایت پر آسیہ بی بی کیخلاف مقدمہ درج کروایا گیا۔ امام مسجد کے مطابق مجمع انہوں نے نہیں بلایا تھا، جرح کے دوران امام مسجد نے کہا واقعہ کا علم 16 جون کو ہوا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ  شکایت کندگان واقعہ میں خود گواہ نہیں، امام مسجد کے بیانات میں تضاد بھی ریکارڈ پر ہے، امام مسجد تھانے میں درحواست لکھنے والے وکیل سے بھی لاعلم ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آر میں کسی عوامی اجتماع کا ذکر نہیں کیا گیا، پانچ مرلہ کے گھر میں عوامی اجتماع کیسے ہو سکتا ہے؟

آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ سزا کے خلاف آسیہ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، عدالت عالیہ نے آسیہ کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

آسیہ بی بی نے جون 2009 میں ایک خاتون سے جھگڑے کے دوران خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ آسیہ کو نومبر 2010 میں جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

سلمان تاثیر کا قتل

2011 میں اسی معاملہ سے جڑے سلسلہ میں پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے قتل کر دیا۔ قتل سے کچھ عرصہ پہلے سلمان تاثیر نے جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کر کے ملزمہ سے اظہار ہمدردی کیا تھا۔

سابق گورنر نے ملزمہ کے ہمراہ جیل میں پریس کانفرنس کی تھی جو بعد میں وجہ قتل بنی۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو 2016 میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔

آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل سننے والے عدالتی بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل سننے والے بینچ کے سربراہ تھے۔


متعلقہ خبریں