ڈی پی او پاک پتن تبادلہ کیس: وزیراعلیٰ، آئی جی کی معافی قبول

سپریم کورٹ: اسحاق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے اور اشتہاری قرار دینے کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

فوٹو: فائل


اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے ناخوش ہیں۔ عدالت نے وزیراعلی، آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی معافی قبول کر لی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی جس کے دوران چیف جسٹس نے کہا ” وزیر اعظم کو بتادیں میں ان سے ناخوش ہوں، کیا نئے پاکستان میں ایسا ہوتا ہے”۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہوگی پنجاب کے یہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔

وزیر اعلی پنجاب، آئی جی کلیم امام اور احسن گجر کی معافی قبول

سپریم کورٹ نے وزیر اعلی عثمان بزدار، آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر کے غیر مشروط  معافی قبول کرلی۔ عدالت نے معافی قبول کرکے تینوں کو ہدایت کی کہ آئندہ احتیاط کریں۔ عدالت نے کہا کہ معافی اس شرط کے ساتھ  قبول کر رہے ہیں کہ ِآئندہ ایسا واقعہ نہیں ہوگا جس کے بعد عدالت نے ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا۔

قبل ازیں صبح  سماعت کے آغاز پر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے عدالتی احکامات پر اپنا جواب دے دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے احمد اویس کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کیا آپ نے رپورٹ پڑھی ہے؟ کیا ایسی رپورٹ ہوتی ہے؟

بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ رپورٹ کا مسودہ کس نے لکھا ہے؟ جواب میں انکوائری افسر خالق داد لک پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل آپ کار سرکار میں مداخلت کا جرم بتائیں؟ ایڈوکیٹ جنرل صاحب آپ اس معاملے کو ہلکا  لے رہے ہیں، یہاں معافی مانگتے، اپنے کئے پر شرمندہ ہوتے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، الٹا تکبر کا اظہار کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملہ میں جے آئی ٹی بناتے ہیں۔ احسن جمیل کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ ہم تو اپنے موکلون کی جانب سے معافی مانگنے آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب رول آف لاء کی بات ہوگی تو میں کسی رہنماء کی بات نہیں مانوں گا۔ وکیل کامران مرتضٰی نے بھی کہا کہ ہم تو معافی مانگنے آئے ہیں۔

احسن بھون کو مخاطب کرکے چیف جسٹس نے پوچھا کہ  آپ کب سے احسن جمیل کو جانتے ہو۔ احسن بھون نے جواب دیا کہ 1980 سے احسن جمیل کو جانتا ہوں، بہت اچھا انسان ہے۔

‘کیا یہ ہے وہ حکومت جو نیا پاکستان بنائے گی؟’

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ہے وہ حکومت جو نیا پاکستان بنائے گی؟ آپ وکلاء یہ رول آف لاء چلا رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کامران مرتضٰی سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، جب آپ کی باری آئے گی تو بات کیجیے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگرانکوائری کرانا چاہتے ہیں تو جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں اس طرح کے الفاظ کیسے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ عدالت عظمی کے سربراہ نے کہا کہ وہ خود انکوائری کریں گے۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا جمع کرایا گیا جواب واپس لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے غیر مشروط معافی مانگی اور پیش بھی ہوئے۔میں ان کی جانب سے دوبارہ غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب اپنی جانب سے مربوط الفاظ میں معافی نامہ لکھیں۔ آئی جی کلیم امام نے کہا کہ میں اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ معافی نامہ جمع کرائیں اس کو بعد میں دیکھیں گے۔

اس سے پہلے جب ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ خالق داد کی رپورٹ مبہم ہے تو چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سےکہا کہ آپ ایک ذمہ دار افسر کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کریں گے۔


متعلقہ خبریں