تھر میں بچوں کی اموات، چیف جسٹس نے سندھ حکومت کی رپورٹ مسترد کردی

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تھر میں بچوں کی ہلاکت کے کیس میں چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری فنانس، ایڈوکیٹ جنرل سندھ سمیت متعلقہ حکام کو طلب کر لیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

سیکرٹری صحت سندھ عدالت کے طلب کیے جانے پر پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس سال کُل 486 بچے ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تعداد ایک سے 29 دن کے بچوں کی تھی جب کہ سول اسپتال مٹھی میں بچوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اس مسئلے کا کیا حل نکالا ہے، میں خود مٹھی گیا تھا وہاں تو سہولیات ہی زیرو ہیں۔

سیکرٹری صحت نے مؤقف اختیار کیا کہ بچوں کی اموات غذائی قلت اور پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہیں اور یہ سلسلہ تین چار سال سے جاری ہے۔

چیف جسٹس نے سندھ حکومت کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس مسئلے کا حل ہنگامی بنیادوں پر نکالنا ہو گا کیوں نہ ہم چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سندھ کو طلب کر لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا تعلق بھی سندھ سے ہے وہ کچھ تجاویز دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں اسپتال ہیں لیکن ڈاکٹرز نہیں ہیں جب کہ تھر اسپتالوں میں مشینیں موجود ہیں تاہم تکنیکی عملہ ہی نہیں ہے اور ڈاکٹرز وہاں جانے کو اپنے لیے سزا سمجھتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا کہ اس معاملے کو ڈاکٹرز کی ٹیم بناکر دیکھا جائے اور اسپتال کا آڈٹ کرایا جائے۔

جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تھر کے حوالے سے اپنی تجاویز تحریری طور پر دیں۔

عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری فنانس، ایڈوکیٹ جنرل سندھ سمیت متعلقہ حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تھر کے لوگ غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

رکن اسمبلی رمیش کمار نے کہا کہ تھر میں کرپشن بہت زیادہ ہے اور کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا ہے جس پر ساڑھے چار ہزار ملین روپے لگائے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں