ڈالر کی قیمت بڑھنے پر چیف جسٹس برہم



اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کے باعث عوام پریشان ہیں، اگر قیمتوں میں ایک پیسے کی بھی کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیے۔

بدھ کے روز سپریم کورٹ میں گیس، بجلی اور پٹرولیم قیمتوں میں اضافی ٹیکس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ٹیکسز بہت بڑھ گئے ہیں اور آج کل کے حالات میں لوگ بھی بہت پریشان ہیں جب کہ مہنگائی میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت اوپر ہی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتایا جائے گزشتہ حکومت نے کیا کیا؟ اگر ایک پیسہ بھی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو یہ ریلیف عوام کو ملنا چاہیے۔

آڈیٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گزشتہ دور حکومت میں ایک ایم ڈی 37 لاکھ روپے تنخواہ پر تعینات کیا گیا۔ چیف جسٹس نے آڈیٹر جنرل سے استفسار کیا کہ اتنی تنخواہ ایک شخص کو دے دی کیا وہ ریاست کا پیارا بچہ تھا؟

آڈیٹر جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی تعیناتی بورڈ نے نہیں وفاقی حکومت نے کی تھی اور جنوری 2015 میں پی ایس او کے ایم ڈی کی تعیناتی کا اشتہار بھی جاری ہوا تھا۔

آڈیٹر جنرل نے مزید بتایا کہ آٹھ درخواست گزاروں میں سے تین کو شارٹ لسٹ کرکے حکومت کو نام بھجوائے گئے لیکن افسوس کہ پہلا پراسیس حکومت نے بلاجواز ختم کردیا اور تعیناتی کا عمل دہرانے کا حکم دیا تھا۔ پہلی بار میں ایم ڈی پی ایس او کا نام نہیں تھا اور جب دوسری بار اپریل 2015 میں تعیناتی کا عمل شروع کیا گیا تو عمران الحق کا نام شامل تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں یہ بتائیں اس وقت وفاقی وزیر اور سیکرٹری پٹرولیم کون تھا؟ جس پر آڈیٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس وقت سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا اور وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تنخواہ اور مراعات کا کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر پی ایس او کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ تنخواہ اور مراعات مارکیٹ ریٹ پر دی جاتی ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں