پاکستانی روپیہ جنوبی ایشیا میں سستی ترین کرنسی بن گیا



کراچی: پاکستان نے کرنسی کی بے قدری میں اپنے خطے کے دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کے بعد جنوبی ایشیا میں پاکستانی روپیہ سستی ترین کرنسی بن گیا ہے۔

سال 1995 کے بعد پہلی بار پاکستانی کرنسی کم ترین سطح پر پہنچی ہے جب کہ ماہرین نے آئندہ چند روز کے دوران روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ بھی ظاہر کر رکھا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق سال 2018 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پانچ اعشاریہ نو فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سال 2019 تک اعشاریہ چھ فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 19-2018 کا بجٹ خسارہ چھ اعشاریہ پانچ جب کہ 20-2019 میں یہ خسارہ چھ اعشاریہ نو فیصد تک پہنچ جائے گا۔

روپے کی قدر میں حالیہ بے قدری کے بعد پاکستان دنیا کی تیسری کمزور ترین مارکیٹ بن گیا ہے۔

دو ماہ قبل کرنسی مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری آئی تھی اور امریکی ڈالر سستا ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے مسلسل روپے کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

گزشتہ دنوں عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد نے سالانہ جائزہ کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے، رعایتی قیمتیں ختم کرنے، بنیادی سہولتوں کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر مزید گرانے کی مطالبہ نما تجاویز دی تھیں۔

پاکستانی حکام کی جانب سے ابتداء میں ان تجاویز کو نہ ماننے کا عندیہ دیا گیا تاہم دو روز قبل انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں نو روپے سے زائد اضافہ ہوا تھا۔

اقتصادی ماہرین نے حکومتی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روپیہ اب بھی اوور ویلیو ہے اور قدر مزید کھو کر فی ڈالر 145 روپے تک جا سکتا ہے۔

آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حکومتی اقدام کو معاشی ماہرین نے مسائل سے بچنے کے لیے آسان طریقہ کا انتخاب قرار دیا تھا۔ وزیراعظم کی اقتصادی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ درآمدات کم کرنے جیسے بظاہر مشکل اقدام کر کے بھی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا تھا۔


متعلقہ خبریں