نقیب قتل کیس،ملزمان کی گرفتاری پر رپورٹ پیش کرنیکی آخری مہلت


کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور ملزمان کی گرفتاری سے متعلق حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لئے آخری مہلت دے دی۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر ملزمان پیش ہوئے جب کہ کیس کے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان بھی عدالت میں موجود تھے۔

تفتیشی افسر نے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ نقیب اللہ قتل کیس میں مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے مفرور ملزمان کی گرفتاری سے متعلق حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کے کے آخری مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

سابق ایس ایس راؤ انوار نے ملیر کینٹ میں اپنی رہائش گاہ سے منتقلی کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا جب کہ اپنے اثاثوں کی چھان بین سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی نعش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی، مبینہ پولیس مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب اللہ  کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں پولیس مقابلے کے خلاف سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور پولیس کے اقدام  کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

سوشل میڈیا میں اٹھنے والی آوازوں کے نتیجے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا، انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نتیجہ قرار دیا۔

آئی جی سندھ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ کے دوستوں قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی کے سامنے نقیب اللہ کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا تھا۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو راؤ انوار خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہیں عدالتی حکم  پر عدالت  کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچا یا گیا۔


متعلقہ خبریں