بچوں کی اموات: چیف جسٹس کا تھر کے دورے کا اعلان

تھر پارکر: غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث مزید 2 بچے جاں بحق

اسلام آباد:  چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ حکومت کو حکم دیا ہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں،انہوں نے کہا کہ وہ اتوار کو مٹھی ہسپتال کا دورہ کرے گا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے تھر میں بچوں کے اموات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مٹھی اسپتال میں اب کسی بچے کی موت نہیں ہونی چاہیے، اسپتال میں تمام سہولیات فراہم ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تھر کے کیا حالات ہو گئے ہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ  نے عدالت کو بتایا کہ تھر کے لوگوں کو گندم فراہم کی جارہی ہے، تھر میں اکثریت ہندو برادری کی ہے اور وہ گوشت کھانا پسند نہیں کرتے۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے گندم، چاول اور دالوں کا پیکج دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جیسے بھی ممکن ہو خوراک کے پیکٹس فراہم کیے جائیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوراک کا معیار بھی بہتر ہونا چاہیے. لوگ خوراک کی قلت اور پانی کی وجہ سے مر رہے ہیں.

دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تھر میں 60 ہزار لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، تھر میں 12 سے 13 سال کی عمر میں بچی کی شادی کردی جاتی ہے، ایسی بچیاں خوراک کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے، تھر میں پانی کی قلت بھی ہے، کیا حکومت تھر میں پانی فراہم کر رہی ہے؟

اس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ تھر میں پانی دینے کے بجائے تھر والوں کو پانی کے قریب لانا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اتوار کو وہ خود آکر دیکھیں گے کہ کیا مسائل ہیں اور جائزہ لیں گے کہ تھر والوں کو کیا سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

گزشتہ سماعت پر سیکرٹری صحت سندھ عدالت کے طلب کیے جانے پر پیش ہوئے تھے۔ سیکٹری صحت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس سال کُل 486 بچے ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تعداد ایک سے 29 دن کے بچوں کی تھی جب کہ سول اسپتال مٹھی میں بچوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ آپ نے اس مسئلہ کا کیا حل نکالا، میں خود مٹھی گیا تھا وہاں تو سہولیات صفر ہیں۔

سیکرٹری صحت نے مؤقف اختیار کیا کہ بچوں کی اموات غذائی قلت اور پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہیں اور یہ سلسلہ تین چار سال سے جاری ہے۔

چیف جسٹس نے سندھ حکومت کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیا تھا کہ اس مسئلے کا حل ہنگامی بنیادوں پر نکالنا ہو گا کیوں نہ ہم چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سندھ کو طلب کر لیں۔


متعلقہ خبریں